کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 162
سے ہم نے یہ کام چھوڑ دیا۔‘‘ وجہ استدلال: امام شافعی رحمہ اللہ اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ’’ابن عمر ’’مخابرہ…‘‘ بٹائی پر کھیتی باڑی کرنا، سے استفادہ کرتے تھے اور اس کو حلال سمجھتے تھے، اور جس وقت ایک ایسے شخص نے جس کو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت حدیث میں متہم نہیں سمجھتے تھے، یہ خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے تو اس خبر کے بعد ’’مخابرت‘‘ کا سلسلہ مزید جاری نہ رکھا، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے ملنے والی خبر کے ساتھ اپنی رائے استعمال کرتے ہوئے یہ نہیں کہا: اب تک ہم ایسا کرتے آ رہے ہیں اور آج تک کسی نے اس مسئلہ میں ہم پر قدغن نہیں لگائی ہے۔‘‘ بٹائی پر کھیتی کرنے کا حکم: بٹائی پر زرعی زمین کھیتی باڑی کے لیے دینے اور لینے کی متعدد صورتیں ہیں جن میں سے بعض جائز ہیں اور بعض جائز نہیں ہیں ۔ ۱۔ زرعی زمین بٹائی پر کھیتی باڑی کے لیے دینے کی جائز صورت یہ ہے کہ زمین کا مالک کسی مزارع اور کاشت کار کو اپنی زمین اس بنیاد پر دے کہ وہ زمین کی پیداوار کا آدھا، یا ایک تہائی، یا ایک چوتھائی خود لے گا اور بقیہ کاشت کار لے گا، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کے یہودیوں سے یہ معاملہ کیا تھا کہ وہ وہاں کی زمین میں کاشت کاری کریں گے اور آدھی پیداوار دیں گے۔ [1] ۲۔ بٹائی پر زمین دینے کی ناجائز صورتوں میں سے ایک صورت یہ ہے کہ زمین کا مالک کسی شخص کو اپنی زمین اس شرط پر کاشٹ کے لیے دے کہ زمین کے کسی حصے کی پیداوار اس کی ہوگی اور کسی حصہ کی پیداوار کاشت کار کی، جیسا کہ رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ: اہل مدینہ میں ہم سب سے زیادہ زرعی زمینوں کے مالک تھے اور ہم میں سے کوئی جب بٹائی پر اپنی زمین دیتا تھا تو لینے والے سے کہتا تھا کہ یہ ٹکرا میرا ہے اور وہ ٹکرا تمہارا، اور بسا اوقات ایسا ہوتا کہ اس ٹکڑے نے پیداوار دی اور اس ٹکڑے نے نہیں دی، لہٰذا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرما دیا۔ [2] ۳۔ مذکورہ بالا صورت کا جو حکم ہے وہی اس صورت کا بھی حکم ہے کہ کوئی شخص اپنی زمین اس شرط پر کسی کو کاشت کے لیے دے کہ کھیت کی نالیوں کے پاس کی زمین کی پیداوار اس کی ہوگی اور بقیہ حصوں کی پیداوار کاشت کار کی، ایسا بھی ہوتا تھا کہ لوگ مخصوص مقدار کی کھجور یا جو کے مقابلے میں اپنی زمینیں کاشت کے لیے دیتے تھے، چونکہ اس میں بھی
[1] صحیح بخاری: ۲۳۳۸۔۳۱۵۲، صحیح مسلم: ۱۵۵۱ [2] بخاری: ۲۳۳۲، مسلم: ۱۵۴۷۔۱۱۷