کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 161
اور معنوی طاقت پارہ پارہ کر چکے تھے اور نہایت مفلوک الحال تھے، لیکن اس حال میں بھی دونوں اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کسب فیض بھی کرتے تھے اور تلاش معاش کے لیے تگ ودو بھی جاری رکھے ہوئے تھے جس کا مطلب یہ ہے کہ سارے صحابہ ہر وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں نہ تو روز حاضری دیتے تھے اور نہ ایسا ان کے لیے ممکن تھا اور نہ ہی اللہ ورسول کو یہ مطلوب تھا بایں ہمہ وہ مجلس رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے انوار وبرکات سے محروم رہنے کے متحمل بھی نہیں ہو سکتے تھے اس کے لیے انہوں نے یہ طریقہ کار بنا رکھا تھا کہ جو لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں حاضر ہوں وہ ان لوگوں کو جو کاروبار حیات میں مصروف ہونے کے باعث اس سے دور رہیں مجلس کی تمام باتوں سے آگاہ کریں امام بخاری نے ایک باب اس عنوان سے قائم کیا ہے: باب التناوب فی العلم… باری باری تحصیل علم کا باب، جس کے تحت انہوں نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اور ایک انصاری کے معمولات کا ذکر کیا ہے، چنانچہ عبداللہ بن عباس عمر رضی اللہ عنہم سے روایت کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں : ((کنت أنا وجارلی من الأنصار فی بنی أمیۃ بن زید وہی من عوالی المدینۃ، وکنا نتناوب النزول علی الرسول صلي اللّٰه عليه وسلم ۔ ینزل یوماً وأنزل یوماً، فاذا نزلت جئتُہ بخبر ذلک الیوم من الوحی وغیرہ، وإذا نزل فعل مثل ذلک۔)) [1] ’’میں اور میرے ایک انصاری پڑوسی جو بالائی مدینہ کی بنو امیہ بن زید نامی بستی میں رہائش پذیر تھے۔ باری باری رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضری دیا کرتے تھے، ایک دن وہ جاتے اور ایک دن میں ، اور جب میں جاتا تو اس دن کی وحی یا غیر وحی کی خبر ان کو پہنچاتا اور جس دن وہ جاتے وہ بھی اس طرح کرتے۔‘‘ وجہ استدلال: یہ حدیث اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ صحابہ کرام ایک شخص کی دی ہوئی خبر کو حجت مانتے تھے اور ان کے نزدیک کسی حدیث کے صحیح اور قابل اعتماد وقابل عمل ہونے کی یہ شرط نہیں تھی کہ اس کے راوی ایک سے زیادہ ہوں ، متواتر ہونا تو دور کی بات ہے۔ بارہویں دلیل، بٹائی پر کھیتی کرنے کی حدیث: ((عن ابن عمر رضی اللہ عنہما ، قال: کنا نخابِر ولا نری بذلک بأساً حتی زعم رافع أن رسول اللّٰہ صلي اللّٰه عليه وسلم نہی عنہا، فترکنا ہا من أجل ذلک۔)) [2] ’’ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہتے ہیں : ہم لوگ بٹائی پر کھیتی کیا کرتے تھے اور اس میں کوئی حرج نہیں محسوس کرتے تھے، یہاں تک کہ رافع نے یہ خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے، تو اس خبر کی وجہ
[1] بخاری: ۸۹۔۷۲۵۶، مسلم: ۱۴۷۹ [2] الرسالہ: ۲۸۹، مسلم: ۱۵۲۷، ابو داؤد: ۳۲۸۹، ۳۳۹۴