کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 160
جب تک خبر متواتر نہ ہو شرعی حجت اور دلیل نہیں ہے اور اصطلاح حدیث میں ایک سے زیادہ یعنی دو یا تین یا چار راویوں کی روایت کردہ حدیث بھی خبر واحد ہی رہتی ہے۔
۲۔ جیسا کہ امام شافعی نے فرمایا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے ثابت اور صحیح حدیث کو رد کر دینے اور اس کی روایت کرنے والے سے دلیل اور گواہی طلب کرنے کا مجاز کوئی نہیں ہے، نہ عمر اور نہ غیر عمر۔
۳۔ صحابہ کرام کے درمیان علم وفضل، صلاح وتقویٰ، سبقت إلی الاسلام اور اسلام کی راہ میں ایثار وقربانی اور فہم دین کے اعتبار سے فرق مراتب ضرور تھا۔ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت حدیث میں سب قابل اعتماد اور قابل بھروسہ تھے اور کسی کو کسی پر فوقیت اور امتیاز نہیں حاصل تھا۔
۴۔ بعض مواقع پر عمر رضی اللہ عنہ سے اس طرح کے طرز عمل کو ان کے مزاج کی سختی پر محمول کرنا زیادہ قرین صواب ہے، بعض علماء نے اس شدت کا جو یہ سبب بتایا ہے کہ وہ یہ چاہتے تھے کہ لوگ روایت حدیث میں احتیاط سے کام لیں تو اس کے جواب میں عرض ہے کہ عمر یا غیر عمر کسی بھی صحابی کے لیے روایت حدیث کا کوئی قاعدہ یا ضابطہ بنانے کے مجاز ہر گز نہیں تھے کیونکہ اللہ ورسول نے ان کو یہ حق نہیں دیا تھا۔
۵۔ ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کی حدیث سن کر عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے جو دلیل طلب کی تھی وہ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی گواہی کی شکل میں ان کو پیش کر دی گئی، مگر صحابہ نے ان کے اس طرز عمل کا استحسان نہیں کیا، چنانچہ جلیل القدر صحابی ابی بن کعب رضی اللہ عنہ اس واقعہ کے معاً بعد عمر رضی اللہ عنہ کے پاس گئے اور ان سے جو کچھ فرمایا وہ حق گوئی کی تاریخ میں بے مثال ہے۔ فرمایا:
((فلا تکن یا ابن الخطاب عذاباً علی أصحاب رسول اللّٰہ صلي اللّٰه عليه وسلم ۔)) [1]
’’خطاب کے بیٹے! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب پر سختی کر کے عذاب مت بنو۔‘‘
یاد رہے کہ عمر اس وقت امیر المؤمنین تھے!!
گیارہویں دلیل، مدرسہ رسالت سے تحصیل علم کی حدیث:
مدرسۂ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طلباء صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تھے جن میں مہاجرین اور انصار دونوں شامل تھے، مہاجرین اپنا وطن چھوڑ کر مدینہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں سکونت پذیر تھے، اور انصار مدینہ کے اصل باشندے تھے جو زراعت پیشہ تھے مادی اعتبار سے دونوں کے حالات ناگفتہ بہ تھے، مہاجرین اپنی ساری جائداد اور گھر بار چھوڑ کر محض اللہ کی رضا کی خاطر یہ غربت کی زندگی گزار رہے تھے اور فقر وفاقہ کا سامنا کر رہے تھے اور انصار کا بھی سارا انحصار زراعت پر تھا، اور مدینہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے رونق افروز ہونے سے قبل ان کے دونوں قبیلے اوس وخزرج یہودیوں کی شہ پر لڑ لڑ کر اپنی ساری مادی
[1] مسلم: ۲۱۵۴