کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 159
عمر بن خطاب نے مجوسیوں سے جزیہ لینے کے مسئلہ میں عبدالرحمن بن عوف کی دی ہوئی خبر قبول کر لی اور یہ نہیں کہا: اگر یہ اہل کتاب ہوتے تو ہمارے لیے یہ جائز ہوتاکہ ہم ان کا ذبیحہ کھائیں اور ان کی عورتوں سے نکاح کریں اور اگر یہ اہل کتاب نہیں ہیں تو ہمارے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ ہم ان سے جزیہ لیں ۔‘‘ [1] ایک اعتراض اور اس کا جواب: اوپر حدیث واحد کے شرعی حجت ہونے سے متعلق جن صحیح حدیثوں سے استدلال کیا گیا ہے اس پر یہ اعتراض کیا جاسکتا ہے اور کیا بھی گیا ہے جیسا کہ امام شافعی نے الرسالہ میں ذکر کیا ہے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے بعض مواقع پر کسی صحابی سے کوئی حدیث سننے کے بعد اسے اس وقت تک قبول نہیں کیا جب تک اس نے ایسا کوئی شاہد نہیں پیش کر دیا جس نے ان کے سامنے یہ گواہی دی کہ اس نے بھی یہ حدیث نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے، اس سلسلے میں صحیحین میں منقول درج ذیل واقعہ کی مثال دی جاتی ہے۔ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ وہ انصار کی ایک مجلس میں موجود تھے کہ ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ خوف زدہ حالت میں وہاں آئے اور کہا: ((استأذنت علی عمر ثلاثاً فلم یؤذن لی، فرجعتُ، فقال: ما منعک؟ قلت: استأذنت ثلاثاً فلم یؤذن لی، فرجعت، وقال رسول اللّٰہ صلي اللّٰه عليه وسلم : إذا استأذن احدکم ثلاثا فلم یؤذن لہ، فلیرجع… فقال: واللّٰہ لَتقیمنَّ علیہ بینۃ۔)) [2] ’’میں نے عمر سے اند آنے کی تین بار اجازت چاہی اور جب مجھے اجازت نہیں دی گئی تو میں واپس چلا گیا، اور جب عمر نے ان سے انتظار نہ کرنے کا سبب دریافت کیا تو انہوں نے جواب دیا: میں نے تین بار اجازت طلب کی تھی، مگر مجھے اجازت نہیں دی گئی، اس لیے واپس چلا گیا، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: جب تم میں سے کوئی تین بار اذن طلب کرے اور اسے اذن نہ دیا جائے تو وہ واپس چلا جائے، اس پر عمر نے کہا: تم اس کی کوئی واضح دلیل پیش کرو، اور مسلم میں ہے: ورنہ تمہیں لوگوں کے لیے درس عبرت بنا دوں گا۔‘‘ قول مزید: امام شافعی نے جو کچھ فرمایا ہے وہ کافی اور شافی ہے، مگر موجودہ دور کے منکرین حدیث کی ذہنیتوں کو سامنے رکھ کر اس گراں قدر قول میں کچھ اضافہ کرنا مناسب خیال کرتا ہوں : ۱۔ یہ واقعہ منکرین حدیث کے حق میں نہیں ہے، کیونکہ وہ خبر واحد کو شرعی حجت ودلیل نہیں مانتے اور ان کے نزدیک
[1] ص: ۱۷۱۷ [2] بخاری: ۲۰۶۲۔۶۲۴۵، مسلم: ۲۱۵۳۔۲۳، ۳۵۔