کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 158
معارض قرار دے، یا جس شخص کو وہ سچا جانتا ہے اس کی دی ہوئی خبر کو مسترد کرے۔ [1] نویں دلیل، طاعون زدہ بستی میں نہ جانے کی حدیث: خلیفہ دوم، عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شام کے سفر میں جب ’’سرع‘‘ کے مقام پر پہنچے تو ان کو خبر ملی کہ: ’’شام میں طاعون پھیلا ہوا ہے‘‘ اس موقع پر انہوں نے مہاجرین اور انصار سے مشورہ کیا، مگر ان میں سے کسی نے ان کو تشقی بخش مشورہ نہیں دیا یہ ساری تفصیلات صحیح بخاری کی حدیث نمبر ۵۷۲۹ میں مذکور ہیں ۔ اتنے میں مشہور صحابی عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ جو اس صلاح ومشورہ کے موقع پر موجود نہیں تھے۔ آگئے اور کہا میرے پاس اس مسئلہ میں علم (حدیث) ہے، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: ((إذا سمعتم بہ بأرض فلا تقدموا علیہ، وإذا وقع بأرض وأنتم بہا فلا تخرجوا فراراً منہ۔)) [2] ’’اگر تم کسی زمین میں طاعون کی موجودگی کے بارے میں سنو تو وہاں مت جاؤ اور اگر وہ کسی ایسی جگہ پھوٹ پڑے جہاں تم ہو تو وہاں سے مت بھاگو۔‘‘ دسویں دلیل، مجوسیوں سے جزیہ لینے کی حدیث: عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ مجوسیوں سے جزیہ نہیں لیتے تھے، یہاں تک کہ عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے یہ گواہی دی کہ: ((أن رسول اللّٰہ صلي اللّٰه عليه وسلم أخذہا من مجوس ہجر۔)) [3] ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجر کے مجوسیوں سے جزیہ لیا ہے۔‘‘ امام شافعی کا استدلال: امام شافعی رحمہ اللہ نے نے الرسالۃ اور الأم کی کتاب اختلاف الحدیث میں ان دونوں حدیثوں سے خبر واحد کے حجت ہونے پر استدلال کیا ہے، طاعون کی حدیث سے استدلال کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ’’عمر نے طاعون کے مسئلہ میں عبدالرحمن کی خبر قبول کر لی اور اس خبر کی وجہ سے لوگوں کو لے کر واپس ہو گئے۔ اس لیے کہ ان کو یہ معلوم تھا کہ عبدالرحمن سچے ہیں اور ان کے نزدیک اور ہمارے نزیک یہ جائز نہیں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالہ سے خبر دینے والے کسی صدق گو کی خبر کی خلاف ورزی کریں ۔‘‘ اور مجوسیوں سے جزیہ لینے کی حدیث سے استدلال کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
[1] ص: ۱۷۱۶۔۱۷۱۷ [2] بخاری: ۵۷۶۸۔۵۷۶۹، ۵۷۳۰، مسلم: ۷۷۱۹ [3] بخاری: ۳۱۵۶۔۵۷، ابو داؤد: ۳۰۴۳، ترمذی: ۱۵۸۶۔۱۵۸۷، سنن دارمی: ۲۵۰۱