کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 157
’’عمر رضی اللہ عنہ نے جنین کی دیت کے مسئلہ میں ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی فیصلہ کے بارے میں سوال کیا تو حمل بن مالک بن نابغہ رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور کہا: میں دو عورتوں کے درمیان موجود تھا جن میں سے ایک نے دوسری کو پنڈال کی چوب سے مارا اور اس کو اور اس کے پیٹ میں بچہ کو قتل کر دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنین کے بارے میں ایک غلام کا فیصلہ کیا اور عورت کو قتل کرنے کا حکم دیا۔‘‘ [1] امام شافعی رحمہ اللہ نے الرسالہ میں یہ حدیث جس سند سے روایت کی ہے اس میں طاوس نے اس کی روایت عمر رضی اللہ عنہ سے براہ راست کی ہے اور طاوس کے عمر سے حدیث نہ سننے کی وجہ سے یہ سند منقطع ہے، لیکن ابو داؤد، نسائی اور ابن ماجہ کی سند میں طاوس نے یہ حدیث ابن عباس سے روایت کی ہے اور انہوں نے عمر سے اس طرح یہ سند متصل ہے۔ ضحاک اور حمل کی حدیثوں سے امام شافعی کا استدلال: امام شافعی رحمہ اللہ نے ضحاک بن سفیان اور حَمَل بن مالک بن نابغہ کی حدیثوں سے خبر واحد کے شرعی حجت ہونے پر الرسالہ میں مختصراً اور الأم میں تفصیلاً استدلال کیا ہے وہ الأم کی کتاب اختلاف الحدیث میں ان دونوں واقعات کا ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں : ان دونوں میں اس امر کی دلیل مضمر ہے کہ اگر کوئی ایک شخص اس شخص کے نزدیک سچا ہے جس کو اس نے خبر دی ہے تو اس کی خبر قبول کی جائے گی، اور اگر کسی کے لیے ایسی خبر کو کسی بھی حال میں مسترد کر دینا روا ہوتا تو عمر بن خطاب کے لیے یہ جائز ہوتا کہ وہ ضحاک سے کہتے کہ تم اہل نجد کے ایک آدمی ہو اور حمل سے یہ کہتے کہ تم اہل تہامہ کے ایک آدمی ہو اور تم دونوں نے ایک قلیل مدت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے اور آپ کی رفاقت کا شرف حاصل کیا ہے، جبکہ میں اور مہاجرین وانصار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ طویل عرصہ سے رہ رہے ہیں ، پھر تم دونوں کو کس طرح وہ بات معلوم ہو گئی جو ہم سب پر مخفی رہی، پھر تم دونوں اپنی اپنی خبر میں فرد واحد ہو اور تمہارے حق میں یہ امکان موجود ہے کہ خبر دینے میں تم سے غلطی ہو گئی ہو یا تم نے اسے بھلا دیا ہو؟ بلکہ انہوں نے حق اس خبر کی پیروی میں دیکھا اور بیوی کو اس کے شوہر کی دیت میں وارث نہ بنانے کی اپنی رائے سے رجوع کر لیا اور جنین کی دیت کے مسئلہ میں اس شخص کی خبر کے مطابق یہ کہہ کر فیصلہ کیا جو وہاں موجود تھا اور جس نے ان کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کی خبر دی تھی: اگر انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی کوئی حدیث نہ سنی ہوتی، تو اس مسئلہ میں حدیث سے مختلف فیصلہ کرتے، مثلا ان کی رائے یہ ہوتی کہ اگر جنین زندہ ہو تو اس کی دیت سو(۱۰۰) اونٹ ہے اور اگر وہ مردہ ہو تو اس کی کوئی دیت نہیں ہے، لیکن چونکہ اللہ تعالیٰ خلق سے اپنی جو عبادت چاہتا ہے وہ اسی طریقے سے کی جا سکتی ہے جو اس کے نبی نے بیان کر دی ہے، لہٰذا کسی کے لیے بھی یہ جائز نہیں ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے ملنے والی کسی خبر پر ’’کیوں ‘‘ اور ’’کیسے‘‘ کا اضافہ کرے یا اپنی رائے کو اس کا
[1] ابو داود: ۴۵۷۲، نسائی: ۴۷۳۹، ابن ماجہ: ۲۶۴۱