کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 156
کے عمل کے خلاف ہو تو اس پر فرض ہے کہ وہ اپنے عمل کو ترک کر کے اس حدیث پر عمل شروع کر دے۔ ۲۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بذات خود حجت ہے، کسی کے اس پر عمل کرنے سے نہیں ۔ اس بات کو مزید واضح کرتے ہوئے امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : جب سنت مل جائے تو ذاتی عمل کو ترک کر دینا فرض ہے اور لوگوں پر بھی یہ فرض ہے کہ اگر سنت ان کے عمل کے خلاف ہے تو وہ اپنے عمل سے کنارہ کشی ہو کر سنت پر عمل کریں ۔ اس حدیث سے یہ دعویٰ بھی باطل قرار پاتا ہے کہ سنت پر اس وقت عمل کیا جائے گا جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی نے اس پر عمل کیا ہو۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اگر کوئی چیز اس سنت کے خلاف ہو تو وہ اس کے حکم کو کمزور نہیں کر سکتی۔ [1] امام شافعی کا قول مبنی برحق ہے: مقتول شوہر کی دیت میں اس کی بیوی کی وراثت کے مسئلہ میں محدث مبارکپوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں : مقتول شوہر کی دیت میں بیوی کی وراثت کے جو علماء قائل ہیں انہی کا مسلک برحق ہے۔ کیونکہ وہ اس حدیث اور اس طرح کی دوسری حدیثوں پر مبنی ہے۔‘‘ [2]اور حدیث کے بذات خود حجت ہونے کے مسئلہ پر شمس الائمہ محمد بن احمد سرخسی رحمہ اللہ اپنے اصول میں تحریر فرماتے ہیں : ’’اگر کسی صحابی کا عمل کسی حدیث کے خلاف ہے تو اس کا سبب یہ ہو سکتا ہے کہ وہ حدیث ان کو معلوم نہ رہی ہو، لہٰذا اس کے خلاف ان کا عمل اس حدیث کے حجت ہونے پر اثر انداز نہیں ہو سکتا اور حدیث حجت رہے گی‘‘ اس کی علت بیان کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں : اس لیے کہ اگر کسی حدیث کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح ہو تو وہ قابل عمل ہے اور اس پر عمل اس وجہ سے ترک نہیں کیا جائے گا کہ اس کے خلاف ایک ایسے شخص کا عمل ہے جو آپ سے فروتر ہے اور اس کے عمل یا فتویٰ کی جو بہتر توجیہ کی جائے گی، وہ یہ کہ اس نے نص کے مخفی رہنے کی وجہ سے اپنی رائے سے فتویٰ دے دیا تھا، اگر وہ اس کو معلوم ہو گئی ہوتی تو اس کی طرف رجوع کر لیتا، لہٰذا جس شخص کو کوئی حدیث صحیح سند سے مروی مل جائے اس کے لیے اس پر عمل فرض ہے۔‘‘ [3] آٹھویں دلیل، رحم مادر کے بچہ کی دیت کی حدیث: عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ: ((أن عمر سأل عن قضیۃ النبی صلي اللّٰه عليه وسلم فی ذلک، فقام حَمَل بن مالک بن النابغۃ، فقال: کنت بین إمرأتین، فضربت إحداہما الأخری بمسطح فقتلتہا وجنینہا فقضی رسول اللّٰہ صلي اللّٰه عليه وسلم فی جنینہا بغرۃ وأن تُقتَلَ۔))
[1] ص: ۲۷۹۔۔۲۸ [2] التحفہ: ص ۱۳۳۵ ج ۱ [3] ص: ۸ ج ۲