کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 155
وجہ استدلال: ۱۔ انگلیوں کی دیت کے مسئلہ میں عمر رضی اللہ عنہ کے فیصلے پر عمل جاری تھا، یہاں تک کہ جب آل عمرو بن حزم کی کتاب لوگوں کو مل گئی تو انہوں نے اسے ترک کر کے اس پر عمل شروع کر دیا۔‘‘ (مراد ابو بکر بن محمد بن عمرو بن حزم کی حدیث ہے جس میں اہل یمن کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض احکام لکھوا کر بھیجے تھے)۔ ۲۔ لوگوں نے آل عمرو بن حزم کی کتاب کو اس وقت تک قبول نہیں کیا جب تک ان کے نزدیک یہ ثابت نہیں ہو گیا کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کتاب ہے۔ ’’ابو بکر بن محمد بن عمرو بن حزم کی اس حدیث میں دو باتوں پر دلالت ہوتی ہے۔‘‘ ۱۔ خبر واحد مان لی جائے۔ ۲۔ خبر اس وقت مانی اور قبول کی جائے جب وہ ثابت ہو، اگرچہ لوگوں کی قبول کردہ خبر پر کسی امام نے عمل نہ کیا ہو۔ ساتویں دلیل، شوہر کی دیت میں بیوی کے حصے کی حدیث: سعید بن مسیب سے روایت ہے کہ: ((أن عمر بن الخطاب کان یقول: الدیۃ للعاقلۃ ولا ترث المرأۃ من دیۃ زوجہا شیئاً، حتیٰ أخبرہ الضحاک بن سُفیان أن رسول اللّٰہ صلي اللّٰه عليه وسلم کتب إلیہ: أن یورث إمرأۃ أشیَمَ الضبابی من دیتہ، فرجع إلیہ عمر۔)) ’’عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ دیت صرف باپ کی طرف کے قرابت داروں کے لیے ہے اور کوئی عورت اپنے شوہر کی دیت سے بطور وراثت کچھ پانے کی حقدار نہیں ہے، یہاں تک کہ ضحاک بن سفیان نے ان کو یہ خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو تحریری حکم نامہ بھیجا تھا کہ وہ أشیم ضبابی کی بیوی کو ان کی دیت سے بطور وارث حصہ دیں ، یہ سن کر عمر نے اس حدیث کی طرف رجوع کر لیا۔‘‘ [1] حدیث میں بیان کردہ واقعہ کی تفصیل: ضحاک بن سفیان رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی قوم میں صدقات جمع کرنے پر مامور کر رکھا تھا اور اشیم ضبابی رضی اللہ عنہ بھی صحابی تھے جو غلطی سے قتل ہو گئے تھے۔ حدیث سے وجہ استدلال: اس حدیث سے بھی دو باتوں پر دلالت ہوتی ہے: ۱۔ اگر ائمہ اسلام میں سے کسی کا کسی بات پر عمل ہو رہا ہو، پھر اس کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی ایسی حدیث مل جائے جو اس
[1] الرسالہ ص: ۲۷۹، فقرہ: ۱۱۷۲، ابو داود: ۲۹۲۷، ترمذی: ۱۴۱۵، السنن الکبری للنسائی: ۶۳۶۳، ابن ماجہ: ۲۶۴۲