کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 154
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل یمن کے لیے ایک کتاب لکھ کر بھیجی جس میں فرائض، سنن اور دیت، خون بہا۔ کے احکام بیان کیے گئے ہیں اس میں آیا ہے… ہاتھ اور پاؤں کی انگلیوں میں سے ہر انگلی کی دیت دس ۱۰ اونٹ ہے۔‘‘ [1] حدیث کی اسنادی حیثیت: یہ ایک طویل حدیث ہے جو اپنی سند کے راوی سلیمان بن داود کی وجہ سے ضعیف ہے اور سلیمان بن داود دراصل سلیمان بن ارقم ہے امام ابو داود نے اپنی کتاب ’’المراسیل‘‘ میں یہ تصریح کی ہے کہ اس حدیث کی سند کے راوی سلیمان کو جس نے بن داود کہا ہے یہ اس کا وہم وخیال ہے، اصل نام سلیمان بن ارقم ہے۔[2] اور سلیمان بن ارقم کے ضعیف ہونے پر ائمہ حدیث کا اتفاق ہے، بلکہ بعض ائمہ نے اس کو متروک قرار دیا ہے، لیکن امام شافعی نے اس حدیث کے جس فقرے سے استدلال کیا ہے، اور جو اوپر نقل کیا گیا ہے اس کے صحیح شواہد دوسری صحیح حدیثوں میں موجود ہیں ، مثال کے طور پر ابو داؤد نمبر ۴۵۶۲، نسائی نمبر: ۴۸۵۸۔۴۸۶۶، اور ابن ماجہ: ۲۶۵۳۔ عمر رضی اللہ عنہ کی مقرر کردہ دیت: سعید بن مسیب سے روایت ہے کہ: ((أن عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ قضی فی الإبہام بخمس عشرۃ وفی التی تلیہا بعشر، وفی الوسطی بعشر، وفی التی علی الخنصر بتسع، وفی الخنصر بستٍ۔)) ’’عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے انگوٹھے کی دیت پندرہ اونٹ، انگشت شہادت کی دیت دس اونٹ، درمیانی انگلی کی دس اونٹ، درمیانی انگلی کے بعد کی انگلی جو اس سے ملی ہوتی ہے اس کی نو اونٹ اور آخری اور چھوٹی انگلی کی چھ اونٹ دیت مقرر کر رکھی تھی۔‘‘ [3] انگلیوں کی دیت میں فرق کی بنیاد: امام شافعی فرماتے ہیں : چونکہ عمر کے نزدیک مشہور یہی تھا۔ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ کی دیت ۵۰ اونٹ مقر کی ہے اور ہر ہاتھ میں پانچ انگلیاں ہوتی ہیں جو خوبصورتی اور فائدے کے اعتبار سے مختلف درجات رکھتی ہیں اس لیے انہوں نے ان کے یہ درجات برقرار رکھتے ہوئے ہر ہاتھ کی انگلی کی دیت اس کے بقدر ہی مقرر کی تھی ایسا انہوں نے خبر پر قیاس کرتے ہوئے کیا تھا۔ [4]
[1] صحیح ابن حبان: ۶۵۵۹ [2] ص: ۲۱۳ [3] سبل السلام ص ۴۴۰ ج ۳، تحفۃ الا حوذی ص: ۱۳۲۴، الرسالہ ص: ۲۷۷، فقرہ: ۱۱۶۰، ۱۱۶۱۔ [4] نیل الاوطار ص: ۱۵۱۱ ج ۲، الرسالہ ص: ۲۷۷۔