کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 151
آپ کا یہ دعویٰ ’’تقلب وجہ‘‘ کنایہ ہے بے چینی واضطراب سے، دلیل سے عاری ہونے کی وجہ سے مردود ہے۔ قران کے نظم کلام کی روشنی میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تقلب وجہ کے معنی ہیں کہ تحویل قبلہ کی وحی کے انتظار میں آپ کی نگاہیں بار بار آسمان کی طرف اٹھا کرتی تھیں ، کیونکہ جبریل علیہ السلام وحی لے کر آسمان ہی سے نازل ہوتے آپ کے اس فعل میں اضطراب اور بے چینی کے بجائے شوق وانتظار کا عنصر کار فرما تھا۔ اصل قبلہ کعبہ ہی ہے: مسلمانوں کے لیے صرف کعبہ کے قبلہ ہونے کا مسئلہ تو مسلم ہے، لیکن سورۃ آل عمران کی آیت نمبر ۹۶: ﴿اِنَّ اَوَّلَ بَیْتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِیْ بِبَکَّۃَ مُبٰرَکًا…﴾ ’’در حقیقت پہلا گھر جو لوگوں کے لیے مقرر کیا گیا وہی ہے جو مکہ میں ہے بہت برکت والا‘‘ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہی سابقہ قوموں کا بھی قبلہ تھا۔ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے نزدیک ’’مسجد حرام‘‘ تمام انبیاء کا قبلہ رہی ہے۔ لیکن یہود ونصاریٰ نے اس کو بدل ڈالا۔ [1] کعبہ عمارت کا نام نہیں ، بلکہ اس جگہ کا نام ہے جہاں اس کی تعمیر ابراہیم اور اسماعیل علیہ الصلٰوۃ والسلام کے ہاتھوں ہوئی اس تعمیر یا عمارت سے پہلے بھی اس جگہ پر بیت اللہ کا اطلاق ہوتا تھا؟ ابراہیم علیہ الصلٰوۃ والسلام کی دعا ہے: ((ربنا إلی اسکنت من ذریتی بواد غیر ذی ذرع عند بیتک المحرم۔)) ’’اے ہمارے رب ! در حقیقت میں نے اپنی بعض اولاد کو بے کھیتی والی وادی میں تیرے محترم گھر کے پاس لا بسایا ہے۔‘‘ ابراہیم علیہ الصلٰوۃ والسلام نے یہ دُعا اس وقت کی تھی جب کعبہ کی تعمیر نہیں ہوئی تھی۔ مذکورہ بالا حقائق کے باوجود عارضی طور پر بیت المقدس مسلمانوں کا قبلہ بنایا گیا، یعنی اللہ کے صریح حکم سے۔ ہجرت کے بعد ۱۶ یا ۱۷ ماہ تک تو اس کا قبلہ رہنا ہر شک وشبہ سے پاک ہے، رہی یہ بات کہ کیا عہد مکی میں بھی بیت المقدس مسلمانوں کا قبلہ رہا تو اگرچہ قرآن وحدیث میں اس کا کوئی ذکر نہیں ہے، لیکن ہجرت کے وقت سے لے کر تحویل قبلہ کا حکم آنے اور اس کے قبلہ رہنے سے یہ اشارہ ضرور ملتا ہے کہ عہد مکی میں بھی بہت المقدس قبلہ تھا۔ واللّٰہ اعلم بالصواب۔ جہاں تک بیت المقدس کو قبلہ بنانے کی حکمت ہے تو اللہ تعالیٰ نے جب خود اس کو بیان کر دیا ہے تو پھر اس کا انکار قرآن کا انکار ہے اور مفتاح القرآن کے مصنف نے تحویل قبلہ کا انکار کر کے جو یہ فرمایا ہے : ’’فتنہ ٔ انکارِ قرآن کب اور کیسے؟ تو اس کی زد قرآن و حدیث دونوں پر پڑتی ہے۔‘‘ قدیم مسجدیں محراب سے خالی ہوتی تھیں : شبیر احمد میرٹھی فرماتے ہیں :
[1] شیخ عثیمن رحمہ اللہ ، تفسیر سورۃ بقرہ ص: ۱۳۷، ج: ۲