کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 150
وَجْہَکَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ﴾ پکار پکار کر یہ اعلان نہیں کر رہا ہے کہ اس ارشاد الٰہی کے نزول کے وقت تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسجد حرام کے علاوہ کسی اور قبلہ پر تھے، ورنہ یہ سب کچھ فرمانے کی کیا ضرورت تھی، اگر آپ کے دعویٰ کے بموجب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ بیت اللہ کی طرف رُخ کر کے ہی نماز پڑھی ہے تو ﴿قَدْ نَرٰی تَقَلُّبَ وَجْہِکَ فِی السَّمَآئِ﴾ ہم آسمان کی طرف تمہارے چہرے کا بار بار پھرنا یقینا دیکھ رہے ہیں ۔ اور ﴿فَلَنُوَلِّیَنَّکَ قِبْلَۃً تَرْضٰہَا﴾ تو ہم تم کو اس قبلہ کی طرف ضرور پھیر دیں گے جسے تم پسند کرتے ہو اور ﴿فَوَلِّ وَجْہَکَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ﴾ ’’سو تم اپنا چہرہ مسجد حرام کی سمت کر لو‘‘ بے معنی اور خلاف واقع نہیں ہو جائے گا؟ اسی سورۂ بقرہ میں تحویل قبلہ سے متعلق سلسلہ وار ۹ آیتیں آئی ہیں اور اگر آیت نمبر ۱۱۵ کو بھی ان میں شامل کر لیں جو دراصل اس اہم مسئلہ کی تمہید ہے تو کل ۱۰ آیتیں ہو جائیں گی۔ جن میں اللہ تعالیٰ نے ’’تحویل قبلہ‘‘ کو مختلف انداز اور اسلوب میں بیان کیا ہے۔ اگر بقول آپ کے ’’تحویل قبلہ‘‘ ہوا ہی نہیں تو اس کو اتنی اہمیت کیوں دی گئی، یاد رہے کہ آیت نمبر ۱۴۴ سے آیت نمبر ۱۵۰ تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دو بار، اور مسلمانوں کو دو بار، مکمل چار بار مسجد حرام کو قبلہ بنانے کا حکم دیا گیا ہے۔ آپ کے دعویٰ کی رو سے کیا یہ سب کچھ تحصیل حاصل نہیں ہے، کیا اللہ کی کتاب کے بارے میں آپ یہی عقیدہ رکھتے ہیں کہ اس میں نعوذ باللہ ایسے واقعات بیان کیے گئے جن کا کوئی وجود نہیں ہے۔ شبیر احمد میرٹھی نے ﴿قَدْ نَرٰی تَقَلُّبَ وَجْہِکَ فِی السَّمَآئِ﴾ کا جو ترجمہ کیا ہے وہ دراصل ایک لطیفہ ہے جس کو لطف لینے کے لیے یا عبرت حاصل کرنے کے لیے پڑھا جا سکتا ہے، فرماتے ہیں : ﴿قَدْ نَرٰی تَقَلُّبَ وَجْہِکَ فِی السَّمَآئِ﴾ کا ترجمہ یہ کرنا کہ: ’’ہم آپ کا بار بار آسمان کی طرف رخ کرنا دیکھ رہے ہیں ۔‘‘ اس لیے صحیح نہیں ہے کہ یہ ’’تقلب وجہک إلی السماء‘‘ کا ترجمہ ہے‘‘ اس کا صحیح ترجمہ یہ ہے کہ: ہم آسمان میں آپ کی بے چینی کا مشاہدہ کر رہے ہیں ۔ یعنی ’’تقلب وجہ‘‘ کنایہ ہے بے چینی واضطراب سے۔‘‘ میں آپ کے اس ترجمہ پر تبصرہ کرنے سے قبل یہ بتا دوں کہ آیت میں ’’فی‘‘ ’’إلی‘‘ ہی کے معنی میں ہے۔ قرآن میں دوسرے ایسے افعال کے صلہ کے طور پر بھی صلہ ’’فی‘‘ استعمال کیا گیا جن کا صلہ إلی آتا ہے۔ مثال کے طور پر ’’رد یرد ردا‘‘ کا صلہ ’’إلی‘‘ آتا ہے۔ لیکن قرآن میں ہے: ﴿جَآئَ تْہُمْ رُسُلُہُمْ بِالْبَیِّنٰتِ فَرَدُّوْٓا اَیْدِیَہُمْ فِیْٓ اَفْوَاہِہِمْ﴾ (ابراہیم:۹) تو آیت میں فی الی کے معنی میں ہے۔ اسی طرح بعث یبعث کا صلہ بھی الی آتا ہے، لیکن قرآن میں فی آیا ہے اور معنی ’’إلی‘‘ کا ہے: ﴿وَلَوْ شِئْنَا لَبَعَثْنَا فِیْ کُلِّ قَرْیَۃٍ نَذِیرًا﴾ اور اگر ہم چاہتے تو ضرور ہر بستی کی طرف ڈرانے والا بھیج دیتے۔‘‘ (الفرقان: ۵۱) قرآن عربی قواعد کی اصل ہے: قرآن عربی قواعد کی اصل ہے، لہٰذا عام عربی تعبیرات کی صحت کی کسوٹی قرآن ہے نہ کہ ’’وضعی قواعد‘‘