کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 148
معنی کسی کو کسی چیز کی طرف پھیرنے اور کسی چیز کے حوالے اور سپرد کر دینے کے بھی ہیں ۔ فعل لازم کی مثال: ﴿فَاَیْنَمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْہُ اللّٰہِ﴾ (البقرۃ: ۱۱۵) ’’تو تم جس طرف متوجہ ہو وہیں اللہ کا چہرہ ہے۔‘‘ دوسرا ترجمہ ہے: ’’تم جس طرف رخ کرو وہی اللہ کا قبلہ ہے۔‘‘ پہلے ترجمہ کی رو سے ارشاد الٰہی کامطلب ہوگا کہ نماز میں تم جس سمت کی طرف بھی رخ کرو، شمال کی جانب کرو، جنوب کی جانب کرو، مشرق کی طرف کرو، مغرب کی طرف کرو تم کعبہ ہی کی طرف متوجہ ہوگے اس طرح ہر چہار جانب سے ہر شخص کا رخ اللہ ہی کی طرف ہوگا، اور فعلا دنیا کے ہر حصے میں بسنے والے مسلمانوں میں سے کوئی مشرق کی طرف رخ کرکے نماز پڑھتا ہے تو کوئی مغرب کی طرف اور کوئی شمال کی طرف چہرہ کر کے نماز پڑھتا ہے تو کوئی جنوب کی طرف، مگر سب کعبہ اور بیت اللہ ہی کی طرف متوجہ ہوتے ہیں ۔ دوسرے ترجمہ کی رو سے ’’وجہ اللہ‘‘ کے معنی ’’جہۃ اللّٰہ‘‘ کے ہیں ۔ یہ بھی صحیح ہے، کیونکہ مشرق ومغرب اور شمال وجنوب ہر جگہ نماز پڑھنے والے کعبہ کی طرف ہی متوجہ ہوتے ہیں جو ’’قبلۃ اللہ‘‘ ہے جس طرح کعبہ بیت اللہ ہے۔ فعل متعدی کی مثال: ﴿فَوَلِّ وَجْہَکَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَ حَیْثُ مَا کُنْتُمْ فَوَلُّوْا وُجُوْہَکُمْ شَطْرَہٗ﴾ (البقرۃ: ۱۴۴) ’’سو تم اپنا چہرہ مسجد حرام کی طرف پھیر دو اور تم لوگ جہاں بھی ہو سو اپنے چہرے اس کی طرف پھیر دو۔‘‘ جہاں یہ فعل پیٹھ پھیرنے اور راہ فرار اختیار کرنے کے معنی میں آیا ہے وہاں اس کے دو مفعول آئے ہیں اسی طرح اس دوسرے معنی میں بھی اس کے دو مفعول آتے ہیں ۔ ولی یولی کے تیسرے معنی: اس فعل کے ایک اور معنی والی اور ذمہ دار بنانے کے بھی ہیں جس کی مثال ہے: ’’ولی فلان فلانا الأمر‘‘ فلاں نے فلاں کو کسی کام کا ذمہ دار، نگراں یا والی بنا دیا۔ ولی یولی کے چوتھے معنی: ولی یولی کے چوتھے معنی یہ ہیں کہ جس نے جو راہ اور جو روش اختیار کی ہے اس کو اس کی طرف پھیر دیا جائے، اس کے حوالہ اور سپرد کر دیا جائے، ارشاد ربانی ہے: ﴿وَ مَنْ یُّشَاقِقِ الرُّسُوْلَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُ الْہُدٰی وَ یَتَّبِعْ غَیْرَ سَبِیْلِ الْمُؤمِنِیْنَ نُوَلِّہٖ مَاتَوَلّٰی﴾ (النساء:۱۱۵ )