کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 147
ہے، کیونکہ ولیَّ کا معنی والی بنانا ہوتا ہے، پھیرنے کے معنی میں س کا استعمال ’’إلی‘‘ کے صلہ کے ساتھ کرتے ہیں ، اس لیے صحیح ترجمہ ہوگا: ہم تم کو تمہارے پسندیدہ قبلہ کا والی بنا دیں گے۔ ایک عام اردوں دان جس کو عربی نہیں آتی اور جو قرآنی تعبیرات پر بھی نطر نہیں رکھتا ان کے اس دعویٰ کو درست مان لے گا اور ان کو ’’علامہ‘‘ کہنے لگے گا جیسا کہ ڈاکٹر غطریف ندوی نے کیا ہے آئیے میں موصوف کی غلط بیانی کا پول کھولتا ہوں ۔ ولَّی یُولِّی تولیۃ: یہ ایک کثیر المعنی اور کثیر الاستعمال فعل ہے یہ باب ’’تفعیل‘‘ سے ہے جس کا ایک مصدر ’’تفعلہ‘‘ کے وزن پر بھی آتا ہے جیسے: زکّی یُزکِّی تزکیۃ، جزّأَ یُجزیُّ تجزئۃ، ہنّأَ یُہنِّیئُ تہنئَۃ وغیرہ۔ ولی یُولی لازم بھی آتا ہے اور متعدی بھی۔ لازم کی مثال: ﴿وَّلّٰی مُدْبِرًا﴾ (النمل: ۱۰) ’’پیٹھ پھیر کر بھاگا۔‘‘ اگر صرف واپس ہونے اور لوٹنے کے معنی میں ہو تو اس کے بعد صلہ ’’إلی‘‘ آتا ہے۔ سورۂ احقاف میں جن کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن سننے کا واقعہ بیان کرنے کے بعد فرمایا گیا ہے: ﴿فَلَمَّا قُضِیَ وَلَّوْا اِِلٰی قَوْمِہِمْ مُنْذِرِیْنَ﴾ (الاحقاف: ۲۹) ’’اور جب وہ پڑھا جا چکا تو وہ اپنی قوم کی طرف ڈرانے والے بن کر لوٹے۔‘‘ متعدی کی مثال: ﴿وَ اِنْ یُّقَاتِلُوْکُمْ یُوَلُّوْکُمُ الْاَدْبَارَ﴾ (آل عمران: ۱۱۱) ’’اور اگر یہ تم سے لڑیں گے تو تم کو پیٹھ دے دیں گے۔‘‘ عربی میں اس کو یوں کہہ سکتے ہیں : ((یجعلون الأدبار تلیکم۔)) ’’یعنی اپنی پیٹھ یا اپنا پیچھا تم سے قریب کر دیں گے۔‘‘ متعدی ہونے کی صورت مین اس کے دو مفعول آتے ہیں ، جیسا کہ آیت میں ہے۔ ولی یولی کے دوسرے معنی: ولی یولی کے دوسرے معنی کسی چیز کی طرف رخ کرنے اور متوجہ ہونے کے ہیں یہ فعل لازم ہے، اسی طرح اس کے