کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 146
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم امر الٰہی کے پابند تھے: جب قرآن سے یہ ثابت ہے کہ کعبہ کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنے کا حکم آنے سے قبل جس قبلہ کی طرف رخ کر کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھتے تھے وہ اللہ کا مقر کردہ تھا اور کعبہ یعنی بیت اللہ کے علاوہ تھا تو پھر اس غلط بیانی کی کیا ضررت تھی، کیا اس سے بیت اللہ کی عظمت میں کوئی اضافہ ہو گیا؟ پھر اگر آپ کے دعویٰ کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ بیت اللہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھی ہے تو کیا یہ بات تصور میں بھی آ سکتی ہے کہ بعض انصاری صحابہ نے بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھی ہے، چونکہ میرٹھی نے اپنے اس دعوے کی کوئی دلیل نہیں دی ہے اور نہ کسی کتاب کا حوالہ دیا ہے اس لیے اس دعویٰ کے رد میں مزید کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ۳۔ میرٹھی کا دعویٰ ہے کہ بیت المقدس تو خود کعبہ رخ ہے، اس طرح قدیم مسجدیں ، مسجد صخرہ اور مسجد نوح اور مسجد صالح قبلہ رخ ہیں ، پھر بیت المقدس کو قبلہ اول کہنا کیسے درست ہو سکتا ہے؟ آپ کہنا کیا چاہتے ہیں ؟ بیت اللہ کے ہمیشہ قبلہ رُخ رہنے اور تحویل قبلہ کے محض عام بات ہونے پر علامہ میرٹھی کا مذکورہ دعویٰ دل بہلانے کے لیے ایک لطیفہ تو قرار دیا جا سکتا ہے، دلیل کے طور پر اس کا بیان تو کوئی سر پھرا شخص ہی کرے گا۔ یہ بیت المقدس اور دوسری قدیم مسجدوں کے قبلہ رخ ہونے سے ان کی کیا مراد ہے، اگر ان سے ان کی مراد یہ ہے کہ بیت المقدس کو یہودیوں نے قبلہ رخ بنایا تھا اور اس سے وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ یہودیوں کے نزدیک بھی بیت اللہ ہی قبلہ عالم ہے تو یہ قرآن کی تکذیب ہے دراصل دنیا میں جتنی تاریخی مسجدیں ہیں وہ عہد اسلامی کی تعمیر کردہ ہیں ، ظاہر سی بات ہے کہ یہ سب قبلہ رخ ہوں گی خود مسجد اقصی سلیمان علیہ الصلٰوۃ والسلام کی تعمیر کردہ نہیں ہے، اسلامی عہد میں عبدالملک بنی مروان (متوفی ۷۶ھ) نے مسجد اقصیٰ کی تعمیر کا کام شروع کیا جس کی تکمیل اس کے بیٹے ولید نے (متوفی ۹۶ھ) کی، البتہ مسجد صخرہ کو عبدالملک ہی نے تعمیر کرایا۔ رسولوں کے نام سے جو مسجدیں ہیں جیسے مسجد نوح اور مسجد صالح وغیرہ تو یہ بھی مسلمانوں کی تعمیر کردہ ہیں ، بطور انتساب یہ ان کے ساتھ نوح اور صالح علیہ الصلٰوۃ والسلام کا نام ہے۔ میرٹھی یہ مغالطہ دے رہے ہیں کہ یہ ان رسولوں کی تعمیر کردہ ہیں ، اور ان کا رُخ بیت اللہ کی طرف ہے: ﴿فَاعْتَبِرُوْا یَااُولِی الْاَبْصَارِ﴾ ۴۔ ولَّی یُولَیْ تَولیۃ کی لغوی تحقیق: ’’علامہ‘‘ میرٹھی نے تحویل قبلہ کے انکار میں جو خامہ فرسائی کی ہے اس میں بیت القصید سورۂ بقرہ کی آیت نمبر ۱۴۴ کے دو فقروں : ﴿فَلَنُوَلِّیَنَّکَ قِبْلَۃً تَرْضٰہَا﴾ اور ﴿قَدْ نَرٰی تَقَلُّبَ وَجْہِکَ فِی السَّمَآئِ﴾ کی تفسیر ہے۔ پہلے فقرہ کا ترجمہ کرنے سے قبل فرماتے ہیں : ﴿فَلَنُوَلِّیَنَّکَ قِبْلَۃً تَرْضٰہَا﴾ کا عام ترجمہ کہ ’’ہم تمہارا رخ تمہارے پسندیدہ قبلہ کی طرف پھیر دیں گے‘‘ غلط