کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 145
رسول کی پیروی کرتا ہے جو اپنی دونوں ایڑیوں کے بل پھر جاتا ہے۔‘‘ یہ دونوں آیتیں پوری صراحت سے اور ببانگ دہل یہ اعلان کر رہی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پہلے جس قبلہ پر عمل پیرا تھے اس کو ترک کر کے انہوں نے اپنا کوئی اور قبلہ بنا لیا ہے اور ان کا سابقہ قبلہ اللہ تعالیٰ ہی کا مقرر کردہ تھا۔ ﴿کَانُوْ عَلَیْہَآ﴾ اور ﴿کُنْتَ عَلَیْہَآ﴾ کے فقرے یہ صراحت کر رہے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کسی اور قبلہ پر تھے اور ﴿مَا وَلّٰہُمْ﴾ اس امر پر دلالت کر رہا ہے کہ اس قبلہ سے انہوں نے اپنا رخ پھیر لیا ہے، اس طرح اللہ تعالیٰ کے ارشاد سے دو قبلوں کا وجود ثابت ہو رہا ہے اور بصراحت ثابت ہو رہا ہے۔ اور آیت نمبر ۱۴۳ کے فقرہ: ﴿مَنْ یَّتَّبِعُ الرَّسُوْلَ﴾ سے یہ ثابت ہو رہا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی اللہ کے حکم کی اطاعت ہے، اس لیے کہ کعبہ سے پہلے جس قبلہ کی طرف رخ کر کے مسلمان نماز پڑھ رہے تھے وہ بھی اللہ تعالیٰ کا مقرر کردہ تھا: ﴿وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَۃَ الَّتِیْ کُنْتَ عَلَیْہَآ﴾ اس پر دلالت کر رہا ہے۔ دوسرے لفظوں میں قرآن وسنت شرعی حکم میں مساوی ہیں ۔ ایک قابل غور نکتہ: آیت نمبر ۱۴۲: ﴿سَیَقُوْلُ السُّفَہَائُ﴾… تحویل قبلہ پر عمل سے پہلے نازل ہو گئی تھی جس پر اسلوب کلام دلیل ہے۔ یہ دراصل تحویل قبلہ کی تمہید ہے، یہودیوں کے لیے یہ سنہری موقع تھا کہ وہ تحویل قبلہ پر خاموش رہ کر اس کی تکذیب کر دیں ، مگر یہ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ تھا جس کا ٹالنا ان کے لیے ممکن نہیں تھا!!! ۱۔ شبیر میرٹھی کا دعویٰ ہے کہ تحویل قبلہ کی روایات حضرت براء بن عازب سے مروی ہیں جو سب روایت ودرایت کے اعتبار سے کمزور ہیں ۔ تحویل قبلہ کی روایات کی استنادی حیثیت: روایت کے ساتھ ’’درایت‘‘ کے لفظ کا استعمال ایک فیشن بن چکا ہے، میرٹھی قرآنی تعبیرات کو بھی نہیں سمجھتے تھے جیسا کہ آگے آ رہا ہے تو صحیحین کی حدیثوں کو روایت ودرایت کے اعتبار سے کمزور کہہ کر رد کر دینے کی کیا علمی اہمیت ہو سکتی ہے چونکہ ندوی نے ان حدیثوں کی تضعیف سے متعلق ان کے دلائل نقل نہیں کیے ہیں ، لہٰذا میں صرف یہ عرض کرنے پر اکتفا کرتا ہوں کہ تحویل قبلہ کی حدیثیں صحیحین میں براء بن عازب، عبداللہ بن عمر اور انس بن مالک رضی اللہ عنہم سے نہایت قوی اور بے غبار سندوں سے مروی ہیں ۔ [1] ۲۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ یا مدینہ دونوں جگہ ہمیشہ بیت اللہ کی طرف رخ کر کے ہی نماز پڑھی ہے، بعض انصاری صحابہ نے البتہ بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز ضرور پڑھی ہے اسی وجہ سے یہ تحویل قبلہ والی بات مشہور ہو گئی۔‘‘
[1] بخاری: ۴۰، ۳۹۹، ۳۰۹۹، ۴۰۳، ۴۲۸۶، ۴۴۸۸، ۴۴۹۰، ۴۴۹۲، مسلم: ۵۲۵، ۵۲۶، ۵۲۷