کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 144
صلہ کے ساتھ کرتے ہیں ، اس لیے صحیح ترجمہ ہوگا: ’’ہم تم کو تمہارے پسندیدہ قبلہ کا والی بنا دیں گے‘‘ اسی طرح ﴿قَدْ نَرٰی تَقَلُّبَ وَجْہِکَ فِی السَّمَآئِ﴾ (البقرۃ: ۱۴۴) کا ترجمہ یہ کرنا کہ: ’’ہم آپ کا بار بار آسمان کی طرف رخ کرنا دیکھ رہے ہیں ۔‘‘ اس لیے صحیح نہیں کہ یہ: ﴿تَقَلُّبَ وَجْہِکَ إلی السَّمَآئِ﴾ کا ترجمہ ہے: ’’ہم آسمان میں آپ کی بے چینی کا مشاہدہ کر رہے ہیں ۔‘‘ یعنی تقلب وجہ کنایہ ہے بے چینی و اضطراب سے۔‘‘ ۵۔ قدیم مفسرین وعلماء میں ابو مسلم اصفہانی اور امام ابو العالیہ ریاحی بھی اس کے قائل تھے کہ قبلہ ہمیشہ کعبۃ اللہ رہا ہے۔ ۶۔ تحویل قبلہ ہوا ہوتا تو اس کے بعد مسجد نبوی اور مسجد قبا میں تعمیری تغیرات کیے جاتے جو ضرور منقول ہوتے، کیونکہ مسجد نبوی کے تمام تعمیری تغیرات تواتر سے منقول ہوتے آ رہے ہیں ۔[1] شبیر احمد میرٹھی کی ہرزہ سرائیوں کا جواب: غطریف شہباز ندوی نے میرٹھی کے مذکورہ بالا اقوال کو دلائل کا نام دیا ہے۔ جو دلائل نہیں ہرزہ سرائیاں ہیں اور ان پر یہ عربی مثل صادق آتی ہے: ((خالف تُشہر)) ’’مخالفت کرو شہرت پاؤ گے۔‘‘ لیکن چونکہ ندوی صاحب ان کی تفسیر قرآن کی، جو دراصل تحریف قرآن ہے بذریعہ انٹرنیٹ کافی ترویج کر رہے ہیں ۔ اس لیے ان کا رد کرنا بھی ضروری ہے، تاکہ کم پڑھے لکھے لوگ خاص طور پر جو قرآن وحدیث سے براہ راست استفادہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ یا جو طبقہ انکار حدیث کے نعرہ سے متاثر ہے یہ سب یہ سمجھ سکیں کہ ’’علمی تحقیق‘‘ کے پردہ میں کہی جانے والی بیشتر باتیں نہ علمی ہیں اور نہ تحقیق۔ ندوی نے تحویل قبلہ کے انکار سے متعلق میرٹھی کے دعوؤں کا خلاصہ نقل کرنے سے پہلے جو یہ فرمایا ہے کہ: ’’مسلمانوں میں عام پھیلی ہوئی بات یہ ہے کہ بیت المقدس قبلہ اول رہا ہے اور تحویل قبلہ کے بعد کعبہ کو مستقل قبلہ بنایا گیا۔‘‘ تو یہ مسلمانوں میں عام پھیلی ہوئی بات‘‘ نہیں ، بلکہ ایسا قرآنی بیان ہے جس کا انکار، یا جس کی تاویل یا جس کی تحریف بھی کسی کے بس میں نہیں ؛ ارشاد الٰہی ہے: ﴿سَیَقُوْلُ السُّفَہَائُ مِنَ النَّاسِ مَا وَلّٰہُمْ عَنْ قِبْلَتِہِمُ الَّتِیْ کَانُوْا عَلَیْہَا﴾ (البقرۃ: ۱۴۲) ’’لوگوں میں سے نادان افراد عنقریب ضرور یہ کہیں گے کہ ان لوگوں کو ان کے اس قبلہ سے کس چیز نے پھیر دیا جس پر یہ تھے۔‘‘ ﴿وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَۃَ الَّتِیْ کُنْتَ عَلَیْہَآ اِلَّا لِنَعْلَمَ مَنْ یَّتَّبِعُ الرَّسُوْلَ مِمَّنْ یَّنْقَلِبُ عَلٰی عَقِبَیْہِ﴾ (البقرۃ: ۱۴۳) ’’اور ہم نے وہ قبلہ جس پر توتھا، مقرر نہیں کیا تھا، مگر اس لیے کہ ہم جان لیں کہ کون اس شخص سے الگ ہو کر
[1] ص: ۱۹۔۲۰