کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 143
ہیں ۔ تو یہ دراصل تاویل کے نام سے تحریف ہے۔ منکرین حدیث میں جن لوگوں کو کچھ علم ہے ان کو یہ معلوم ہے کہ قرآن اور حدیث میں نہ کوئی تعارض ہے اور نہ ہو سکتا ہے اس لیے وہ پہلے تفسیر اور تاویل کے نام سے قرآن میں تحریف کرتے ہیں ، پھر اس آیت اور اس کی تفسیر وبیان سے متعلق حدیث میں تعارض کا دعویٰ کر کے حدیث کا انکار کرتے ہیں اس طرح ان کا جرم یہود کے جرم سے بھی بڑھ گیا ہے، یعنی حدیث دشمنی میں قرآن میں تحریف۔ ’’مفتاح القرآن‘‘ کے نام سے ایک نا تمام تفسیر شبیر احمد ازہر میرٹھی نے لکھی ہے یہ تفسیر تو میرے سامنے نہیں ہے، مگر اس کا ایک طویل تعارف، تفسیر مفتاح القرآن کا ایک مطالعہ‘‘ کے عنوان سے اس وقت میرے سامنے ہے جو ڈاکٹر غطریف شہباز ندوی کا تحریر کردہ ہے، تعارف نگار نے شبیر احمد کو علامہ اور ان کی تفسیر کو بیسویں صدی کا ایک عظیم قرآنی کارنامہ قرار دیا ہے۔ حسن اتفاق یہ کہ میں تحویل قبلہ کے موضوع پر لکھ رہا تھا کہ ڈاکٹر شہباز ندوی کا مذکورہ تعارفی مقالہ اپنے ایک کرم فرما کے ذریعہ مجھے مل گیا جس میں تحویل قبلہ کے بارے میں مفتاح القرآن کے مصنف کی ہرزہ سرائی یا تحریف ’’تحقیق علمی‘‘ کے نام سے موجود ہے۔ مجھے افسوس ہے کہ اصل کتاب میرے سامنے نہیں ہے۔ لیکن چونکہ ندوی صاحب ان کے بے حد عقیدت مند لگتے ہیں اور انہوں نے ان کی رائے کا خلاصہ نقل کر دیا ہے اس لیے ان کا دعویٰ یا تحریف صحیح صورت میں بیان ہو گئی ہے۔ اگرچہ الفاظ ندوی صاحب کے ہیں ’’علامہ‘‘ شبیر احمد کے نہیں ۔ ’’ندوی تحویل قبلہ کی بحث‘‘ کے تحت لکھتے ہیں : ’’مسلمانوں میں عام پھیلی ہوئی بات یہ ہے کہ بیت المقدس قبلہ اول رہا ہے اور تحویل قبلہ کے بعد کعبہ کو مستقل قبلہ بنایا گیا، مگر صاحب مفتاح القرآن کے نزدیک تحویل قبلہ والی روایات کمزور ہیں اور تحویل قبلہ ہوا نہیں ، کعبۃ اللہ ہی ہمیشہ قبلہ رہا ہے ان کے دلائل کا خلاصہ یہ ہے: ۱۔ تحویل قبلہ کی روایات حضرت براء بن عازب سے مروی ہیں جو سب روایت ودرایت کے اعتبار سے کمزور ہیں ۔ ۲۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ یا مدینہ دونوں جگہ ہمیشہ بیت اللہ کی طرف رخ کر کے ہی نماز پڑھی ہے بعض انصاری صحابہ نے البتہ بیت المقدس کی طرف رخ کر کے ضرور نماز پڑھی ہے اور اسی وجہ سے یہ تحویل قبلہ والی بات مشہور ہو گئی ہے۔ ۳۔ بیت المقدس تو خود کعبہ رخ ہے، اسی طرح قدیم مسجدیں ، مسجد صخرہ، اور مسجد نوح اور مسجد صالح سب قبلہ رخ ہیں ، پھر بیت المقدس کو قبلہ اول کہنا کیسے درست ہو سکتا ہے۔ ۴۔ ﴿فَلَنُوَلِّیَنَّکَ قِبْلَۃً تَرْضٰہَا﴾ (البقرۃ: ۱۴۴) کا عام ترجمہ کہ: ’’ہم تمہارا رخ تمہارے پسندیدہ قبلہ کی طرف پھیر دیں گے۔‘‘ غلط ہے، کیونکہ ’’ولیَّ‘‘ کا معنی والی بنانا ہوتا ہے، پھیرنے کے معنی میں اس کا استعمال ’’إلی‘‘ کے