کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 142
دنوں کو شمار کر لیا ہے۔ حافظ ابن حجر کے مطابق تحویل قبلہ کا حکم رجب کی ۱۵ تاریخ کو نازل ہوا تھا، شعبان کی ۱۵ تاریخ کو نہیں ۔ (فتح الباری، ص: ۲۹۶، ج۱) ۴۔ براء بن عازب کی حدیث میں جو یہ آیا ہے کہ: ((وأنہ صلي اللّٰه عليه وسلم أولَ صلاۃ صلاہا، صلاۃ العصر۔)) ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو پہلی نماز ادا فرمائی وہ عصر کی نماز تھی۔‘‘ تو اس سے ان کی مراد ((أول صلاۃ صلاہا متوجہا إلی الکعبۃ صلاۃ العصر۔)) ’’وہ پہلی نماز جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کعبہ کی طرف رخ کر کے پڑھی نماز عصر ہے۔‘‘ چونکہ سلسلہ بیان سے یہ بات واضح تھی اس لیے اختصار سے کام لیا۔ [1] ۵۔ حدیث میں ’’أہل الکتاب‘‘ ’’الیہود‘‘ پر عطف ہے یعنی عطفِ عام خاص پر۔ وجہ استدلال: امام شافعی رحمہ اللہ اس حدیث سے ’’حدیث واحد‘‘ کے حجت ہونے پر استدلال کرتے ہوئے فرماتے ہیں : اہل قباء انصار کے ان لوگوں میں سے تھے جن کو ’’سبقت الی الاسلام‘‘ اور علم میں ایک خاص مقام حاصل تھا اور جس قبلہ کی طرف منہ کر کے وہ نماز پڑھ رہے تھے وہ اللہ نے ان پر فرض کیا تھا۔ ایسی صورت میں ان کے لیے اللہ کے فرض کردہ قبلہ کو ترک کرنا صرف اسی ذریعہ علم سے جائز تھا جو ان کے لیے حجت ہو، ورنہ وہ نہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملے تھے اور نہ انہوں نے وہ آیت ہی سنی تھی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر تحویل قبلہ سے متعلق نازل ہوئی تھی کہ اس طرح وہ اللہ کی کتاب اور اس کے رسول کی سنت کو بذات خود سن کر، یا متعدد افراد کے خبر دینے کے بموجب نئے قبلہ کی طرف رخ پھیرنے والے قرار پاتے، بلکہ انہوں نے محض ایک شخص کے یہ خبر دینے کی بنیاد پر کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر تحویل قبلہ کا حکم نازل ہو گیا ہے اس قبلہ سے رخ پھیر کر کعبہ کی طرف اپنا چہرہ کر لیا جو ان پر فرض تھا۔ انہوں نے ایسا اس لیے کیا کہ ان کو یہ معلوم تھا کہ اگر خبر دینے والا سچا ہو تو اس کی خبر حجت ہے جس پر عمل کرنا فرض ہے۔ کیونکہ اگر خبر واحد حجت نہ ہوتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا ہوتا کہ: تم جس قبلہ پر تھے اس سے رخ پھیرنا تمہارے لیے اس وقت تک جائز نہ تھا جب تک تم پر، براہ راست مجھ سے سن کر، یا جم غفیر، یا ایک سے زیادہ افراد کے میری نسبت سے خبر دینے سے حجت نہ قائم ہو جاتی۔ [2] تحویل قبلہ اور تحریف قرآن: قرآن کی لفظی تحریف کرنے کی جرأت تو کوئی احمق ہی کر سکتا ہے، البتہ قرآن کی معنوی تحریف تو معتزلہ کے دور سے جاری ہے اور جس چیز کا نام انہوں نے ’’تاویل‘‘ دیا ہے اور پھر انہی کی پیروی میں متکلمین، صوفیا اور برصغیر کے اہل قرآن الفاظ اور تعبیرات کی تاویل کر کے ان کو اپنے باطل افکار ونظریات سے ہم آہنگ بنانے کی کوشش کرتے آ رہے
[1] فتح الباری، ص: ۲۹۶، ج ۱ [2] الرسالۃ، ص: ۲۷۰۔۲۷۱