کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 141
طرف رخ کر کے نماز پڑھی ہے۔ یہ سن کر وہ جس حال میں تھے اسی حال میں بیت اللہ کی سمت میں گھوم گئے۔ یہودیوں کا حال یہ تھا کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے تھے تو یہ ان کو پسند آتا تھا اور اہل کتاب کو بھی پسند آتا تھا، لیکن جب آپ نے اپنا چہرہ بیت اللہ کی طرف پھیر لیا تو انہوں نے اس کو نا پسند کر دیا۔‘‘ حدیث کی تشریح: ۱۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث میں ہے کہ قباء میں نماز فجر ادا کرنے والوں کو تحویل قبلہ کی خبر دینے والے نے کہا تھا کہ: ((أن رسول اللّٰہ صلي اللّٰه عليه وسلم قد أُنزل علیہ اللیلۃ قرآن۔)) ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر رات کو قرآن نازل کیا گیا ہے۔‘‘ جبکہ طبقات ابن سعد (ص: ۴۴۲، ج: ۱) کے مطابق تحویل قبلہ کی آیتیں بنو سلمہ کی ایک مسجد میں نماز ظہر ادا کرتے ہوئے نازل ہوئی تھیں تو اس اشکال کا جواب یہ ہے کہ ’’اللیلۃ‘‘ کا اطلاق گزشتہ دن کے بعض حصہ پر کیا جاتا ہے اور اس کے بعد آنے والی رات پر بھی (فتح الباری، ص: ۴۷۷، ج: ۱) اسی وجہ سے صبح کی نماز ادا کرنے والے مسلمانوں کو خبر دینے والے نے رات کی تعبیر اختیار کی تھی۔ ۲۔ عبداللہ بن عمر کی حدیث کے مطابق مسجد قباء میں تحویل قبلہ کی خبر اس وقت پہنچی جب لوگ نماز فجر ادا کر رہے تھے اور ایک رکعت ادا کر چکے تھے۔ جبکہ براء بن عازب کی حدیث کے مطابق انصار کے محلے کی مسجد میں یہ خبر اس وقت پہنچی جب لوگ عصر کی نماز بنو سلمہ کی مسجد میں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز ظہر ادا کرنے والے ایک صحابی عباد بن بشر بن قیظی نے انصار کی مسجد کے پاس سے گزرتے ہوئے جب لوگوں کو دیکھا کہ وہ بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز عصر ادا کر رہے ہیں تو انہوں نے ان کو بتایا کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز ظہر بیت اللہ کی طرف رخ کر کے ادا کر کے آ رہے ہیں اس طرح لوگوں نے نماز ہی میں اپنا رخ کعبہ کی طرف کر لیا۔ اور یہی خبر قباء میں لوگوں کو نماز فجر ادا کر تے ہوئے ملی اور انہوں نے اسی حالت میں بیت اللہ کو قبلہ بنا لیا اس طرح دونوں میں کوئی تعارض نہیں رہ جاتا۔ ۳۔ براء بن عازب رضی اللہ عنہ کی حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنے کی مدت ۱۶ ماہ ۱۷ ماہ، شک کے ساتھ بیان کی گئی ہے تو یہ شک سند کے بعض راویوں ، مثلاً زہیر، ابو نعیم اور سفیان ثوری کی راویتوں میں ہے، لیکن اسی حدیث کی دوسری سندوں میں ۱۶ ماہ کی مدت بیان کی گئی ہے، تو یہ بھی کوئی اختلاف بیان نہیں ہے، کیونکہ جن راویوں نے ۱۶ ماہ کی مدت بیان کی ہے انہوں نے ربیع الاول کے مہینے کے ان دنوں کو جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ پہنچے تھے، اسی طرح ماہ رجب کے ان دنوں کو جس میں تحویل قبلہ کا حکم نازل ہوا تھا، شمار نہیں کیا ہے اس طرح ۱۶ ماہ ہوتے ہیں اور جن لوگوں نے ۱۷ ماہ کی مدت بتائی ہے انہوں نے ماہ ربیع الاول اور ماہ رجب کے