کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 139
مدد دیتے ہیں ۔‘‘ حدیث سے وجہ استدلال: اس حدیث سے وجہ استدلال یہ ہے کہ اس کی راوی تنہا ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا ہیں اور اس میں جو واقعات بیان ہوئے ہیں وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے سن کر انہوں نے اپنے الفاظ میں بیان کیے ہیں ، کیونکہ ان واقعات کے ظہور پذیر ہونے کے وقت وہ پیدا بھی نہیں ہوئی تھیں ، بایں ہمہ یہ حجت ہے اور تمام محدثین، تمام سیرت نگار، تمام مؤرخین اور تمام فقہاء پہلی وحی کے نزول اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے منصب نبوت پر سرفراز کیے جانے پر اسی حدیث سے استدلال کرتے ہیں ۔ ۳۔ تیسری دلیل، نیت کی حدیث: علقمہ بن وقاص لیثی کہتے ہیں : میں نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو برسر منبر یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: ((سمعت رسول اللّٰہ صلي اللّٰه عليه وسلم یقول: إنما الأعمال بالنیات، وإنما لکل امریٔ مانوی، فمن کانت ہجرتہ إلی دنیا یُصیبہا أو إلی امرأۃ یَنکِحُہا فہجرتہ إلی ماہاجر إلیہ۔)) ’’درحقیقت اعمال کا اعتبار نیتوں پر ہے اور ہر انسان کو وہی ملے گا جس کی اس نے نیت کی ہوگی، لہٰذا جس کی ہجرت حصول دنیا یا کسی عورت سے نکاح کرنے کی طرف ہوگی تو اس کی ہجرت اس کی طرف مانی جائے گی جس کی طرف اس نے ہجرت کی ہوگی۔‘‘ [1] آغاز وحی کی حدیث کی طرح اس حدیث کے راوی بھی صرف ایک صحابی عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ہیں ۔ اور ان سے روایت کرنے والے علقمہ بن وقاص لیثی ہیں ، اور علقمہ سے اس کی روایت محمد بن ابراہیم تیمی نے کی ہے اور محمد سے اس کے راوی یحییٰ بن سعید انصاری ہیں ۔ صرف ایک صحابی اور تابعین کے تین طبقات میں ۔ بڑے، متوسط اور چھوٹے۔ اس کے ایک ایک راوی ہیں اس کے باوجود یہ حدیث تمام شرعی اعمال کی صحت اور اعتبار کی بنیاد ہے۔ ۴۔ چوتھی دلیل، تحویل قبلہ کی حدیث: ((عن عبداللّٰہ بن عمر رضی اللہ عنہما قال: بینا الناس بقباء فی صلاۃ الصبح، إذجاء ہم آتٍ، فقال: ان رسول اللّٰہ صلي اللّٰه عليه وسلم قد اُنزل علیہ اللیلۃ قرآن وقد أمِرَ أن یستقبل الکعبۃ فاستقبلوہا، وکانت وجوہُہم إلی الشام، فاستداروا إلی الکعبۃ۔)) ’’عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، کہتے ہیں : جس وقت لوگ قبا میں فجر کی نماز پڑھ رہے تھے کہ ان کے
[1] بخاری: ۱، مسلم: ۱۹۰۷