کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 138
۷۔ عروہ نے یہ حدیث ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے سنی تھی جو ان کی خالہ تھیں اور جن کی گود میں اور زیر تربیت رہ کر وہ کندن بنے تھے۔
آغاز وحی کی حدیث کی سند کے راویوں کے مختصر تعارف کی روشنی میں یہ سند ’’سلسلۃ الذہب‘‘ کا درجہ رکھتی ہے۔
یہ حدیث ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے اپنے الفاظ میں روایت کی ہے۔ اس طرح یہ روایت بالمعنی ہے۔
یہ حدیث ام المؤمنین کی عظمت کی دلیل ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان المبارک سے ام المؤمنین اور سیّدہ نساء العلمین خدیجہ رضی اللہ عنہا کے مسلسل ذکر خیر کی وجہ سے ان کے دل میں خدیجہ کے حوالہ سے غیرت ورشک کے جو فطری جذبات تھے، یہ جذبات اس حدیث میں ان کی عطر بیز سیرت وکردار کے بیان میں مانع نہیں ہوئے۔ ام المؤمنین خدیجہ رضی اللہ عنہا کو تو انہوں نے دیکھا تک نہیں تھا اور جب عروہ بن زبیر سے انہوں نے یہ حدیث بیان کی ہے اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس دنیا میں نہیں تھے ایسی صورت میں اگر وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خلوت گزینی اور پھر جبریل علیہ السلام کی آمد اور سورۂ اقرأ کی ابتدائی پانچ آیتوں کے نزول کے ذکر پر اکتفا کرتیں تو وہ قابل ملامت ہر گز نہ ہوتیں ، مگر ان کی عظمت، امانت داری اور بلندی کردار نے یہ گوارا نہ کیا کہ وہ اس عظیم خاتون اور منفرد ہستی کا ذکر نہ کریں جو رحمۃ اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح معنوں میں رفیقۂ حیات تھیں اور جن کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب مبارک میں منفرد مقام ومرتبہ تھا اور ان کی جدائی کے بعد اپنی زندگی کے آخری لمحات تک ان کی یاد آپ کے قلب مبارک سے محو نہ ہوئی۔ [1]
یہ حدیث ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے حسین طرز بیان کی سچی تصویر پیش کرتی ہے۔ تصنع اور تکلف اور مصنوعی انشا پردازی سے پاک اس طرز بیان کو ’’ترسل‘‘ کہتے ہیں ، انہوں نے سارے واقعات کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے سن کر ان کو اپنی فطری، سادہ اور بلیغ زبان میں بیان کر دیا ہے اور دقت بیان ایسی کہ واقعہ کی کوئی کڑی غائب نہیں ہوئی ہے۔ اور شروع سے لے کر آخر تک ام المؤمنین خدیجہ رضی اللہ عنہا کی تابناک شخصیت نمایاں ہے۔ اور پہلی وحی کے نزول کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جو اضطرابی کیفیت طاری ہو گئی اور آپ نے اپنی جان کے جس خطرے اور اندیشے کا اظہار فرمایا اس کے ازالہ کے لیے خدیجہ نے جو کلمات کہے وہ انگوٹھی میں نگینہ کا درجہ رکھتے ہیں ۔ یہ کلمات عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس حدیث میں جوں کے توں نقل کر دیے ہیں :
((کلا أبشر، فواللّٰہ لایخزیک اللّٰہ أبداً، إنک لتصل الرَحم، وتصدق الحدیث وتحمل الکل وتقری الضیف وتعین علی نوائب الحق۔))
ہر گز نہیں ، خوش ہو جائیے، اللہ کی قسم، اللہ آپ کو کبھی رسوا نہیں کرے گا، آپ صلہ رحمی کرتے ہیں ، سچ بولتے ہیں ، بے سہارا لوگوں کا بار اٹھاتے ہیں ، مہمان نوازی کرتے ہیں اور حق کے مصائب کو برداشت کرنے میں
[1] بخاری: ۳۸۱۵، ۳۸۱۶، ۳۸۱۷، ۳۸۲۱، مسلم: ۲۴۳۵۔۷۵، ۷۶، ۲۴۳۶، ۲۴۳۷