کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 133
حاصل ہوتا ہے اور کیا دنیا کا کوئی سراغ رساں یا دنیا کے کسی ملک کی فوج ان کے محل وجود تک پہنچ سکی ہے، جبکہ دنیا کے جس حصے میں یہ قوم موجود ہے اس کی ایک بالشت بھر زمین بھی ایسی نہیں ہے جس کا علم بڑی طاقتوں کو نہ ہو۔ مولانا نے بعد میں شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی کتاب حجۃ اللہ البالغہ کی بنیاد پر یہ دعویٰ کیا ہے کہ ان تمام اشکالات سے جان چھڑانے کی صورت یہی رہ جاتی ہے کہ دجال کی اس موجودگی کو اس عالم مادی کے علاوہ کسی اور عالم میں تسلیم کی جائے اور یہ فرض کیا جائے کہ تمیم داری اور ان کے ساتھیوں کے لیے یہ دونوں عالم جمع کر دیے گئے تھے۔ [1] بلاشبہ شاہ ولی اللہ نے اپنی مذکورہ کتاب کے باب ذکر عالم المثال، میں یہ لکھا ہے کہ: ’’بہت سی احادیث اس امر پر دلالت کرتی ہیں کہ اس عالم وجود میں ایک غیر مادی عالم بھی ہے جس میں معانی اپنے ہم صفت اجسام کی شکل اختیار کرلیتے ہیں اور بہت سی چیزیں زمین میں موجود پانے سے پہلے ہی کسی نہ کسی درجہ میں موجود ہوتی ہیں ، پھر جب ان کو وجود ملتا ہے تو یہ وہی اجسام اور وہی معانی ہوتے ہیں ، اور بہت سی ایسی چیزیں جن کا عوام کی نظر میں کوئی جسم نہیں ہوتا وہ ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتی ہیں اور اوپر سے زمین پر اترتی ہیں ۔ [2] شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ نے اپنے اس قول کی دلیل میں جن احادیث کی مثالیں دی ہیں ان سے ان کے قول کی تائید نہیں ہوتی، مثلاً جب اللہ نے مخلوق کی تخلیق فرما لی اس وقت رشتہ وقرابت داری گویا ہوئی: ((ہذا مقام العأمذ بک من القطیعۃ۔)) ’’یہ قطع رحمی سے تیری پناہ میں آنے والے کا مقام ہے۔‘‘ [3] اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ((إن البقرۃ وآل عمران تأتیان یوم القیامۃ غمامتان او غیایتان او کانہما فرقان طیر صواف تحاجان عن أہلہما۔)) ’’سورۂ بقرہ اور سورۂ آل عمران قیامت کے دن اس طرح آئیں گی گویا وہ بادل کے دو ٹکڑے یا دو سائبان ہوں ، یا پر پھیلائے ہوئے پرندوں کی دو جماعتیں ہوں اور اپنے پڑھنے والوں کی طرف سے جھگڑیں گی۔‘‘[4] شاہ صاحب نے نماز، صدقہ اور روزہ اور معروف ومنکر کی بھی مثالیں دی ہیں جو قیامت کے دن مادی شکلیں اختیار کر لیں گی۔ دراصل شاہ صاحب نے جو کچھ فرمایا ہے وہ صوفیانہ خیال آرائی کے سوا کچھ نہیں ، تعجب ہے کہ مولانا صفی الرحمن مرحوم نے قیامت کے دن کے احوال کو دنیا کے احوال کے مطابق کیسے کر لیا اور اسی دنیا میں عالم مادی اور عالم معنوی کو ایک ساتھ
[1] ص: ۳۸۳، ج ۴۔ [2] ص: ۵۱، ج ۱۔ [3] بخاری: ۵۹۸۷، مسلم: ۲۵۵۴۔ [4] مسلم: ۸۰۴۔