کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 132
اس حدیث کے آخر میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بحر شام اور بحر یمن میں دجال کے ہونے کے بارے میں اپنے جس تردد کا اظہار فرمایا ہے اور پھر مشرق سے اس کے ظہور کی جو تائید کی ہے تو اس وقت تک اللہ تعالیٰ نے آپ کو دجال کے بارے میں صرف اتنا ہی بتایا تھا جس میں مشرق سے اس کے ظہور کا پہلو زیادہ غالب تھا اس لیے بحر شام اور بحر یمن کے بارے میں آپ نے اپنے شک کا اظہار کرنے کے بعد مشرق سے اس کے ظہور پر زور دیا ہے۔ حدیث جساسہ پر ایک نظر: اس حدیث سے وجہ استدلال صرف یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک نو مسلم صحابی اپنے ایک سمندری سفر کے واقعات بیان کرتے ہوئے آپ کو نہایت سنسنی خیز انکشافات کی خبر دیتا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہ صرف کہ اس کی باتیں غور سے سنتے ہیں ۔ بلکہ صحابہ کرام کو مسجد میں جمع کر کے ان کے سامنے اور منبر سے ان کی باتوں کی تائید کرتے ہیں اور اللہ کے حوالے سے نہیں ، اس صحابی کے حوالہ سے ان باتوں کو دجال سے متعلق اپنے ارشادات کے مطابق قرار دیتے ہیں اور اس پورے مجمع میں صرف ایک صحابیہ فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا ایسی ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طویل ارشاد کو حرف بحرف اپنے لوح قلب پر نقش کر لیتی ہیں اور اس واقعہ پر تیس برس سے زیادہ مدت گزر جانے کے بعد مشہور تابعی عامر بن شراحیل شعبی کی درخواست پر ان کو لفظ بلفظ سنا دیتی ہیں اس واقعہ سے جہاں یہ درس ملتا ہے کہ صحابہ کا حافظہ نہایت حیرتناک تھا وہیں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ روایانِ حدیث کی قلت اس امر پر دلالت نہیں کرتی کہ اس حدیث کا علم رکھنے والے بھی قلیل تھے۔ دراصل احادیث رسول کا علم تو صحابہ کی اکثریت رکھتی تھی، کیونکہ اس کے بغیر شرعی احکام پر عمل ممکن نہیں تھا، لیکن حدیثوں کی روایت کرنے والے بہت کم ہوتے تھے، اس لیے کہ روایت حدیث فرض کفایہ تھی اور چند افراد کے انجام دینے سے دوسروں سے اس کی فرضیت ساقط ہو جاتی تھی۔ زیر بحث حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں دجال کے وجود پر جو اشکالات وارد ہوتے ہیں سر فہرست یہ اشکال ہے کہ متعدد احادیث میں یہ خبر دی گئی ہے کہ اس کا ظہور قرب قیامت کے زمانے میں ہوگا۔ پھر تمیم داری رضی اللہ عنہ نے کسی جزیرے میں اس کو کیسے دیکھا؟ کیا یہ ممکن ہے کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں پیدا ہو گیا ہو اور اپنے ظہور کا وقت آنے تک اسی جزیرے کی خانقاہ میں بند رہے؟ مولانا صفی الرحمن مبارکپوری مرحوم نے منۃ المنعم فی شرح صحیح مسلم میں لکھا ہے کہ سراغرسانوں نے دنیا کا چپہ چپہ چھان مارا ہے۔ پھر وہ کس جزیرے یا خانقاہ میں موجود ہے جہاں تک ان کی رسائی نہیں ہو سکی؟ اس سوال کے جواب میں عرض ہے کہ ایک شخص کے لیے دجال کا سراغ لگانے سے آسان تو ایک پوری قوم، یاجوج ماجوج اور اس کی آبادی کا سراغ لگا لینا ہے جس کا ذکر خود قرآن پاک میں آیا ہے، مگر دسیوں مفسرین اور مؤرخین نے یاجوج ماجوج کے بارے میں اب تک جو کچھ لکھا ہے کیا اس سے اس قوم کی حقیقت اور اس کے محل وجود کا یقینی علم