کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 131
۱۔ پہلی دلیل، حدیث جساسۃ: تمیم داری رضی اللہ عنہ مشرف بہ اسلام ہونے سے پہلے عیسائی تھے وہ صدق دل سے ایمان لائے اور نہایت مخلص مسلمان ثابت ہوئے، انہوں نے قبل از اسلام اپنے ایک سمندری سفر کا واقعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا جس میں ان کی اور ان کے رفقائے سفر کی ملاقات ایک عجیب الخلقت عورت اور جزیرے کی ایک خانقاہ میں ایک ایسے شخص سے ہوئی جس نے اپنے آپ کو مسیح دجال بتایا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی زبان سے یہ واقعہ سن کر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو مسجد نبوی میں جمع کیا اور ان کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: ((إن تمیما الداری کان رجلاً نصرانیا، فجاء فبایع وأسلم، وحدثنی حدیثا وافق الذی کنت أحدثکم عن مسیح الدجال۔)) ’’تمیم داری جو پہلے ایک نصرانی تھے اور میرے پاس آکر بیعت کی اور مسلمان ہو گئے، انہوں نے مجھے ایک ایسی بات بتائی ہے جو میری اس بات کے مطابق ہے جو میں تم سے مسیح دجال کے بارے میں بتاتا رہتا تھا۔‘‘ [1] یہ ایک طویل حدیث ہے جس کا محل استدلال پہلو یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمیم داری رضی اللہ عنہ کی زبان سے ان کے سمندری سفر اور مسیح دجال ہونے کے مدعی شخص سے ان کی ملاقات کے واقعہ کو سنا اور ان میں سے کسی بھی چیز کی تکذیب نہیں کی، البتہ آپ نے حاضرین کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: ((ألاہل کنت حدثتکم ذلک؟ فقال الناس: نعم، فإنہ أعجبنیی حدیث تمیم، إنہ وافق الذی کنت أحدثکم عنہ، وعن المدینۃ ومکۃ، ألا! إنہ بحرالشام، أوبحرالیمن، لابل من قِبَلِ المشرق، ماہو من قبل المشرق، ماہو من قبل المشرق ماہو‘‘ وأو مَأَبیدہ إلی المشرق۔)) ’’کیا میں نے تم سے یہی بیان کیا ہے؟ لوگوں نے عرض کیا: ہاں ، آپ نے فرمایا: مجھے تمیم کی بات پسند آتی ہے؛ یہ میری اس بات کے مطابق ہے جو میں تم لوگوں سے دجال، مدینہ، اور مکہ کے بارے میں بیان کرتا آ رہا ہوں ، غور سے سن لو! وہ بحر شام یا بحر یمن میں ہے، نہیں ، بلکہ مشرق کی طرف سے ظاہر ہوگا، وہ مشرق کی طرف سے ظاہر ہوگا، وہ مشرق کی طرف سے ظاہر ہوگا، وہ‘‘ آپ نے اپنے ہاتھ سے مشرق کی جانب اشارہ کیا۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمیم داری سے سنا ہوا یہ واقعہ مسجد نبوی میں منبر سے صحابہ کرام کو سنایا، جس کی راوی صرف جلیل القدر صحابیہ فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا ہیں ۔
[1] صحیح مسلم: ۲۹۴۲