کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 130
امام شافعی بجا طور پر ناصر السنۃ اور مجدد اسلام تھے۔ معتزلہ اور ان کے بطن سے نکلنے والے فرقے اور متکلمین حدیث کے شرعی مقام ومرتبے کو گھٹانے میں لگے ہوئے تھے۔ قرآن کو تو وہ قطعی الثبوت مانتے تھے، مگر اس کے ’’صریح الدلالۃ‘‘ ہونے کے منکر تھے اور صفات باری تعالیٰ سے متعلق آیتوں کی من مانی تاویلیں کر رہے تھے اور حدیث کے سب سے بڑے ذخیرے ’’آحاد‘‘ کو ظنی الثبوت کہہ کر نا قابل استدلال قرار دے چکے تھے۔ عام ائمہ حدیث ا ن کا ردّ کرنے کے قابل نہیں تھے ایسے وقت میں اللہ تعالیٰ نے اس ’’شیر دل‘‘ امام کو میدان میں لا کھڑا کر دیا جس کا نام محمد بن ادریس شافعی ہے۔
امام شافعی کو اللہ تعالیٰ نے غیر معمولی قوت بیان، نصوص کے استحضار اور نصوص سے استدلال کی بے مثال صلاحیتوں سے نواز دیا تھا۔ انہوں نے اپنا بچپن قبیلہ ہذیل میں گزارا تھا اور وہیں اپنی جوانی تک پلے بڑھے اور قبیلہ ہذیل کے لب ولہجہ میں اس قدر رنگ گئے کہ امام لغت وادب اصمعی نے اپنے محفوظ ہذلی اشعار امام شافعی کو سنا کر درست کیے۔ [1]
قبیلہ ہذیل فصاحت وبلاغت میں قریش کے بعد دوسرے درجہ پر تھا، لیکن بیرون قبیلہ کے لوگوں سے عدم اختلاط کے باعث قریش کے برعکس اس کی زبان زیادہ عرصہ تک محفوظ رہی۔
امام شافعی نے اپنی مشہور کتاب ’’الام‘‘ کی ’’جماع العلم‘‘ (ص: ۱۵۷۲۔۱۵۸۱) اور اختلاف الحدیث (ص ۱۷۱۴۔۱۷۹۶) میں حدیث کے حجت ہونے کے مسئلہ پر تفصیل سے اور مدمل بحث کی ہے اور اپنی شاہکار تصنیف الرسالہ میں دلائل وبراہین کی زبان میں ’’حدیث واحد‘‘ کو شرعی حجت ثابت کیا ہے اور مثالوں پر مثالیں دے کر اس مسئلہ کو واضح فرمایا ہے۔
امام شافعی رحمہ اللہ نے منکرین حدیث کو دو گروہوں میں تقسیم کیا ہے: ۱۔ پہلا گردہ وہ ہے جو سرے سے حدیث کو شرعی حجت مانتا ہی نہیں ۔ ۲۔ دوسرا گروہ وہ ہے جو اخبار آحاد کا منکر ہے۔ وہ خبر واحد یا حدیث واحد کو ’’روایہ الخاصۃ عن الخاصۃ‘‘سے تعبیر کرتے ہیں ۔ الرسالہ میں انہوں نے حدیث واحد کے حجت ہونے کی جو مثالیں دی ہیں ان میں سے ہر حدیث کا ایک ہی راوی ہے۔ جاہے کسی ایک طبقہ میں یا متعدد طبقوں میں ۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی صحیح بخاری میں ایسی حدیثیں روایت کی ہیں جو احادیث آحاد ہیں اور شرعی حجت ہیں ، میں حدیث واحد کے حجت ہونے کے دلائل کے ضمن میں جو مثالیں دینے جا رہا ہوں وہ ان دونوں کے علاوہ حدیث کی دوسری کتابوں سے بھی لوں گا اور ساتھ ہی ساتھ ان لوگوں کے دعؤوں کا رد بھی کرتا جاؤں گا جنہوں نے بعض احادیث آحاد کے حجت ہونے کا سبب یہ بتایا ہے کہ ان کے راوی صحابہ ’’حکومت الٰہیہ‘‘ کے نمایندے تھے، یا ان کو ’’عرفی‘‘ حیثیت حاصل تھی۔
[1] ابو زہرہ، الشافعی، ص: ۱۸