کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 129
باب ششم:
حد یث واحد کے حجت ہونے کے دلائل
حدیث واحد، جیسا کہ نام سے ظاہر ہے اس حدیث کو کہتے ہیں جس کا راوی تمام طبقوں میں ، یا پہلے طبقہ میں ایک رہا ہو، یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جس کی روایت صرف ایک صحابی نے کی ہو اور کسی دوسرے صحابی نے اس سے متعارض کوئی حدیث روایت نہ کی ہو، بعد میں ہر اس حدیث کو حدیث واحد کہا جانے لگا جس کے روایوں کی تعداد حد تواتر سے کم ہو، حدیث واحد کی تعریف میں یہ توسع خوارج اور معتزلہ اور ان کے بطن سے نکلنے والے فرقوں کے اس دعوے کے نتیجے میں پیدا ہو گئی کہ ’’خبر واحد‘‘ شرعی حجت اور دلیل نہیں ہے، جبکہ امر واقعہ یہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین کے دور میں کسی حدیث کی صحت وعدم صحت کا حکم اس کے راویوں کی قلت وکثرت کے پیش نظر نہیں لگایا جاتا تھا، بلکہ راوی کی عدالت اور فسق کی بنیاد پر لگایا جاتا تھا: اگر حدیث کا راوی ’’عادل‘‘ ہے تو حدیث صحیح اور مقبول ہے اور اگر ’’فاسق‘‘ ہے تو اس کی روایت کردہ حدیث صرف تحقیق طلب ہے، قابل رد نہیں ، اور یہ حکم ربانی ہے۔ (سورۂ حجرات: ۶)
صحابہ تو سب ’’عدول‘‘ تھے اور یکساں درجہ میں ثقہ تھے، لیکن تابعین اور ان کے بعد کے ’’راویان حدیث‘‘ میں صرف وہ عدول تھے جو ’’ائمہ نقد رجال‘‘ کی تحقیق کے مطابق عدالت سے موصوف تھے۔
اس کتاب میں میں بار بار یہ واضح کرتا آ رہا ہوں کہ ’’تواتر‘‘ کی تعریف پر دو ماہرین حدیث کا بھی اتفاق نہیں ہے اور معتزلہ کے دور سے آج تک تواتر کا راگ الاپنے والے ایسی کسی حدیث کی مثال نہیں پیش کر سکے ہین اور نہ قیامت تک پیش کر سکتے ہیں جس کو دلیل سے ’’حدیث متواتر‘‘ قرار دیا جا سکے۔ دراصل یہ نعرہ لگایا ہی اس لیے گیا تھا اور آج تک لگایا جا رہا ہے کہ حدیث سے ’’پیچھا چھوٹ سکے‘‘ لہٰذا حدیث کو ’’واحد‘‘ اور ’’متواتر‘‘ میں تقسیم کرنے کی کوئی کوشش بھی اللہ ورسول کے کسی حکم کی تعمیل نہیں ، بلکہ ہوائے نفس کی تعمیل ہے جس کی دلیل یہ ہے کہ معتزلہ کے دور سے آج تک منظر عام پر آنے والے منکرین حدیث کی کتابوں کا مطالعہ کیجئے تو ان میں آپ کو غلط بیانیوں ، علمی خیانتوں ، کتاب وسنت کی نصوص میں کترو بیونت اور ان سے غلط استدلات، ائمہ حدیث پر جھوٹے الزامات اور قرآن وحدیث میں تعارض کی ناکام کوششوں کے سوا کچھ نہ ملے گا۔
امام شافعی رحمہ اللہ کی خدمات حدیث
اس فصل کے تحت میں حدیث واحد کے حجت ہونے کے دلائل پیش کرنے سے قبل اس مرد میدان کا ذکرخیر کر دینا مناسب خیال کرتا ہوں جس کو امام اہل السنۃ احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے مجدد اسلام اور ناصر السنۃ کا لقب دیا۔ [1]
[1] سیر اعلام النبلا، ص: ۳۹۹ ج ۸