کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 127
کیا یہ حقیقی وحی نہیں تھی، بلکہ لغوی وحی تھی؟ کیا لغوی وحی سے کوئی یہ جان سکتا ہے کہ چند لمحے بعد اس کے کیا حالات ہوں گے؟ یہاں تو چالیس سال بعد رونما ہونے والے حالات کی ان کو اطلاع دی گئی ہے۔ نوح علیہ الصلٰوۃ والسلام کے بارے میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ﴿فَاَوْحَیْنَا اِِلَیْہِ اَنِ اصْنَعُ الْفُلْکَ بِاَعْیُنِنَا وَوَحْیِنَا﴾ (المؤمنون: ۲۷) ’’پس ہم نے اس کی طرف وحی کی کہ ہماری آنکھوں کے سامنے اور ہماری وحی کے مطابق کشتی بنا۔‘‘ کیا یہ لغوی وحی تھی، حقیقی وحی نہیں تھی یا تدبیر نبوی تھی؟ کیا کوئی شخص وہ رسول ہی کیوں نہ ہو لغوی وحی کے ذریعہ یہ جان سکتا ہے کہ زمین میں تباہ کن طوفان آنے والا ہے اور اہل ایمان کو اس سے بچانے کے لیے ایک خاص قسم کی کشتی درکار ہے؟ پھر یہ لغوی وحی ہوتی کیا ہے؟!! سورۂ قیامہ میں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ حکم دینے کے بعد کہ: ’’جب ہم اسے پڑھیں تو تم اس کے پڑھنے کی پیروی کرو۔‘‘ (۱۸) آپ سے جو یہ وعدہ فرمایا تھا: ﴿ثُمَّ اِنَّ عَلَیْنَا بَیَانَہٗ﴾ ’’پھر درحقیقت اسے بیان کر دینا ہمارے ذمہ ہے۔‘‘ (۱۹) تو قرآن کی تفسیر وبیان سے اس نے آپ کو کس ذریعہ سے آگاہ فرمایا تھا یا کس ذریعہ سے اس کی آپ کو تعلیم دی تھی؟ براہ راست تو نہیں ، کیونکہ وہ اپنی کتاب میں یہ اعلان فرما چکا ہے کہ وہ کسی انسان سے براہ راست بات نہیں کرتا، اگر ہم آپ کی یہ بات مان لیں کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کے بیان کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں ڈال دیا تھا تب بھی حقیقت نفس الامری نہیں بدلتی، کیونکہ یہاں جو مسئلہ ہے وہ قرآن کے بیان کا مسئلہ ہے جس کا ذمہ اللہ نے لیا ہے، یہ بیان قرآن میں تو نہیں ہے، اگر ہے تو کوئی یہ بتائے کہ قرآن کا کون حصہ ’’متن‘‘ کا ہے اور کون شرح وبیان کا، لہٰذا یہ ماننا پڑے گا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کی جو تفسیر، توضیح اور تبیین فرماتے تھے وہ بہر حال آپ کی اپنی اپج، صوابدید اور بصیرت نہیں تھی، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کی نسبت اپنی طرف کی ہے: ﴿ثُمَّ اِنَّ عَلَیْنَا بَیَانَہٗ﴾ آپ تھوڑی دیر کے لیے چھوڑیے وحی متلو اور وحی غیر متلو کی بحث اور اس کی عقلی توجیہ، صرف یہ بتا دیجئے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنا وعدہ پورا کیا یا نہیں ؟ ہمارا تو اس بات پر ایمان ہے کہ اس نے اپنا وعدہ پورا کیا، اس لیے کہ وہ اپنے وعدے کی خلاف ورزی نہیں کرتا: ﴿وَعَدَ اللّٰہِ لَا یُخْلِفُ اللّٰہُ الْمِیْعَادَ﴾ ’’اللہ کا وعدہ ہے اور درحقیقت اللہ اپنے وعدے کی خلاف ورزی نہیں کرتا۔‘‘ (سورۂ الزمر: ۲۰) اور یقینا اس نے اپنا وعدہ پورا کیا اور بذریعہ وحی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن کا بیان سکھایا۔ میں نے ابھی جو کچھ عرض کیا اس کی دلیل یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم وحی کے پابند تھے: ﴿وَّاتَّبِعْ مَا یُوْحٰٓی اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرًا﴾ (الاحزاب: ۲) ’’اور تم اس چیز کی پیروی کرو جو تمہاری طرف تمہارے رب کی طرف سے وحی کی جاتی ہے در حقیقت اللہ جو