کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 126
سے انہوں نے کبھی تو قرآن اور وحی کو مترادف قرار دیا ہے، کبھی قرآن کو حقیقی وحی سے تعبیر سے کیا ہے اور بقیہ وحیوں کو ’’لغوی وحی‘‘ بتایا ہے۔ اور کبھی سنت کو ’’وحی‘‘ کی دائرہ سے نکال کر اس کو بصیرت نبوی کہا ہے، یہ ساری بکواس انہوں نے اس وجہ سے کی ہے کہ انہوں نے کلام اور وحی کو ایک سمجھ لیا اگر ان کو یہ معلوم ہوتا کہ کسی چیز کے وحی ہونے سے اس کے اللہ کا کلام ہونا لازم نہیں آتا، اس لیے کہ کلام اللہ تعالیٰ کی صفت ہے اور قرآن پاک حقیقی معنی میں یا حقیقت میں اللہ تعالیٰ کا کلام ہے۔ حروف، الفاظ اور معانی سب میں اللہ تعالیٰ کا کلام ہے جس کے مشابہہ اور ہم مثل کلام بنانا، اور گھڑنا جن وانس کی استطاعت سے باہر ہے۔ قرآن کے اللہ کا کلام ہونے کا سبب اس کا وحی ہونا نہیں ہے۔ قرآن اس وجہ سے اللہ کا کلام نہیں ہے کہ وہ وحی ہے، بلکہ ’’وحی‘‘ ایک فعل ہے جس کے ذریعہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا ہے۔ جب ہم قرآن کی تعبیر وحی سے کرتے ہیں تو ’’وحی‘‘ سے مراد ’’موحی‘‘ اسم مفعول ہوتا ہے یعنی جو وحی کیا گیا ہے، وحی کے ذریعہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب پر جبریل علیہ السلام کے واسطہ سے نازل کیا گیا ہے، اسی طرح جب قرآن پر تنزیل کا اطلاق کیا جاتا ہے تو مراد ’’منزل‘‘ اسم مفعول ہوتا ہے۔ قرآن کے لیے ’’وحی‘‘ کے مقابلے میں ’’انزال اور تنزیل‘‘ کی تعبیرات زیادہ استعمال ہوتی ہیں جس سے اللہ تعالیٰ کی صفت ’’علو‘‘ کا اظہار مقصود ہے جس سے اس کا صفاتی نام ’’العلی‘‘ بنا ہے مطلب یہ ہے کہ قرآن اوپر سے نازل ہوا ہے، اللہ تعالیٰ کی صفت علو یا سب پر بلند ہونے کی اہمیت کا اندازہ اس آیت سے لگایا جا سکتا ہے جس میں علوی مخلوق ’’فرشتوں ‘‘ کی صفت بیان ہوئی ہے ارشاد ربانی ہے: ﴿یَخَافُوْنَ رَبَّہُمْ مِّنْ فَوْقِہِمْ وَ یَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ﴾ (النحل: ۵۰) ’’وہ اپنے اس رب سے ڈرتے ہیں جو ان کے اوپر ہے اور انہیں جو حکم دیا جاتا ہے وہ بجا لاتے ہیں ۔‘‘ ہر وحی حقیقی تھی: قرآن پاک میں جتنی وحیوں کا ذکر آیا ہے سب حقیقی وحیاں ہیں ، حتیٰ کہ شہد کی مکھی کو کی جانے والی وحی بھی حقیقی ہے، البتہ ’’وحی جبلی تکوینی‘‘ ہے جس پر عمل کرنے پر وہ مجبور ہے جن انبیائے کرام صلواۃ اللہ وسلام علیہم کو وحی کیے جانے کا ذکر قرآن پاک میں آیا ہے وہ سب حقیقی وحیاں ہیں ، لغوی وحیاں یا بصیرت نبوی یا تدبیر نبوی سے عبارت نہیں ہیں ۔ یوسف علیہ الصلٰوۃ والسلام کو جب ان کے بھائیوں نے کنویں میں ڈالنا چاہا تو اس لمحہ اللہ نے ان کو وحی کی: ﴿فَلَمَّا ذَہَبُوْا بِہٖ وَ اَجْمَعُوْٓا اَنْ یَّجْعَلُوْہُ فِیْ غَیٰبَتِ الْجُبِّ وَ اَوْحَیْنَآ اِلَیْہِ لَتُنَبِّئَنَّہُمْ بِاَمْرِہِمْ ہٰذَا وَ ہُمْ لَا یَشْعُرُوْنَ﴾ (یوسف: ۱۵) ’’پس جب وہ اسے لے گئے اور اسے اندھے کنویں میں ڈالنے کا حتمی فیصلہ کر لیا، عین اسی لمحہ میں ہم نے اس کی طرف وحی کی کہ تو یقینا ان کو ان کے اس کرتوت کی خبر دے گا، جبکہ وہ اس کا احساس تک نہ رکھتے ہوں گے۔‘‘