کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 125
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’سنت بھی قرآن کی طرح بذریعہ وحی نازل ہوتی تھی، لیکن قرآن کی طرح اس کی تلاوت نہیں کی جاتی تھی، یا اس کی تلاوت نہیں کی جاتی۔ ‘‘[1] الرسالہ اور الأم کی عبارتوں سے جہاں یہ بات واضح ہو گئی کہ سنت صرف قرآن کی تشریح وبیان نہیں ، بلکہ مستقل تشریع ہے وہیں یہ بھی معلوم ہو گیا کہ قرآن کی طرح سنت بھی وحی ہے۔ فتنہ کیا ہے؟ اعظمی صاحب کی جسارت ملاحظہ ہو: ’’اس گفتگو سے واضح ہو گیا کہ حقیقی معنی میں وحی کا اطلاق صرف قرآن پر ہو گا جو لفظاً اور معنا دونوں طرح محفوظ ہے، ہمارے بہت سے علماء کی غلطی یہ ہے کہ انہوں نے دونوں طرح کی وحی پر ایک ہی حکم لگا دیا، نتیجہ کے طور پر وہ خود بھی فتنہ میں پڑے اور مسلمانوں کی ایک کثیر تعداد کو بھی مبتلائے فتنہ کیا۔‘‘ [2] میں یہ واضح کرنے سے قبل کہ فتنہ کیا ہے اس اصل مقصد کی طرف اشارہ کر دینا چاہتا ہوں جس کی خاطر اعظمی صاحب نے یہ ساری ہرزہ سرائیاں کی ہیں۔ اعظمی کی ہرزہ سرائیاں: اعظمی صاحب نے اپنے اس مضمون ’’وحی کی حقیقت‘‘ سے جو ثابت کرنے کی سعی لا حاصل کی ہے وہ صرف یہ ہے کہ سنت یا حدیث کو ’’وحی‘‘ کی صفت نہیں حاصل تھی، بلکہ یہ صفت صرف قرآن کو حاصل ہے۔ موصوف اور ان کے ہمنوا دوسرے ’’مجددین‘‘ ایسا قرآن کی محبت میں نہیں کرتے، بلکہ سنت کی تشریعی حیثیت کے انکار میں کرتے ہیں ، لیکن تاثر یہ دیتے ہیں کہ وہ ایسا قرآن کی محبت اور احترام میں کرتے ہیں ، جبکہ امر واقعہ یہ ہے کہ قرآن کی یہ محبت اور احترام محض ایک فریب ہے جو یہ لوگوں کو دینا چاہتے ہیں ، ورنہ اگر ان کو قرآن سے حقیقی محبت ہوتی اور ان کے دل میں قرآن کا معمولی سا بھی احترام ہوتا تو یہ قرآن کی طرح سنت کو بھی وحی مانتے اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام مناصب رسالت قرآن ہی میں بیان کیے گئے ہیں جن میں قرآن میں غیر منصوص شرعی احکام کا بیان بھی داخل ہے، اس طرح سنت چاہے وہ نص قرآن کی پابندی سے عبارت ہو، یا اس کے اجمال کی تفصیل وتبیین سے یا قرآن میں غیر منصوص شرعی احکام سے، سب میں وہ قرآن ہی کی طرح واجب العمل ہے اور اللہ تعالیٰ کے حکم سے واجب العمل ہے، لہٰذا یہ لازم قرار پایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر شرعی قول وفعل مبنی بر وحی ہو۔ کلام اور وحی: اعظی صاحب نے یہ مغالطہ دینے کی کوشش کی ہے یا ان کو معلوم نہیں کہ ہر وحی کا اللہ کا کلام ہونا ضروری نہیں ہے، اسی وجہ
[1] مجموع الفتاوی، ص: ۳۶۳۔ ۳۶۴، ج ۱۳ [2] ص ۳۳