کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 124
نازل فرمایا ہے۔ ۲۔ کتاب اللہ میں اجمالی حکم بیان ہوا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس اجمالی مفہوم کو اللہ کی مراد کے مطابق بیان کر دیا ہے اور یہ واضح فرمایا دیا ہے کہ اس حکم کی فرضیت عام ہے یا خاص، اور اللہ تعالیٰ کی مراد کے مطابق بندوں کو یہ حکم کس طرح بجا لانا ہے۔ اس کے بعد امام شافعی نے لکھا ہے کہ سنت کی ان دونوں صورتوں کے بارے میں اہل علم کا کوئی اختلاف نہیں ہے۔ لیکن ایک تیسری صورت سنت کی وہ ہے جس کے بارے میں کتاب اللہ میں کوئی نص نہیں ہے تو اس سے متعلق علماء کے کئی گروہ ہیں : ۱۔ ایک گروہ کا قول ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جس چیز میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت فرض کی ہے اس کو اپنے ازلی علم میں یہ معلوم تھا کہ آپ کو اس کی رضا کے لیے یہ توفیق ملے گی کہ آپ ان امور میں شرعی طریقہ مقرر فرمائیں گے جن کے حق میں کتاب اللہ میں کوئی نص نہیں ہو گی۔ ۲۔ دوسری جماعت کا دعویٰ ہے کہ آپ نے جو طریقہ بھی مقرر فرمایا ہے اس کی اصل کتاب اللہ میں موجود ہے، جیسا کہ آپ نے نمازوں کی تعداد اور ان کو ادا کرنے کا طریقہ بیان فرمایا ہے، جبکہ نماز کی فرضیت کی اصل اجمالی شکل میں قرآن میں موجود ہے، اس طرح بیع وشراء کے احکام بھی ہیں ۔ ۳۔ تیسرے گروہ کا خیال ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جس منصب رسالت پر آپ کو فائز کیا ہے اس میں یہ بات داخل ہے اس طرح اللہ کے فرض کرنے سے یہ سنت فرض ہوئی ہے۔ ۴۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو شرعی طریقہ بھی مقرر فرمایا ہے وہ سب آپ کے دل میں ڈال دیا گیا ہے اور آپ کی سنت وہ حکمت ہے جو اللہ کی طرف سے آپ کے دل میں ڈالی گئی ہے، لہٰذا جو چیز آپ کے دل میں ڈالی گئی ہے وہی آپ کی سنت ہے۔ [1] اور کتاب ’’الأم‘‘ میں امام شافعی نے ایک سائل کا یہ سوال نقل کیا ہے۔ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت بھی ’’وحی‘‘ ہے؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں : ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی بھی چیز وحی کے بغیر فرض نہیں کی ہے، وحی کی ایک قسم وہ ہے جس کی تلاوت کی جاتی ہے اور ایک وحی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ایسی کی جاتی تھی جس کے ذریعہ آپ شرعی طریقہ مقرر فرماتے تھے۔ ‘‘[2]
[1] فقرہ نمبر ۲۹۸۔ ۳۰۵، ص ۹۷۔ ۹۹ [2] ص: ۱۵۸۷۔ ۱۵۸۸