کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 122
۶۔ سنت صرف قرآن کی تشریح وتبیین ہی نہیں ، بلکہ مستقل تشریعی ماخذ بھی ہے۔ ۷۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر بصورت وحی صرف قرآن نہیں نازل ہوتا تھا، بلکہ سنت بھی نازل ہوتی تھی۔ ۸۔ مذکورہ بالا تمام حیثیتوں میں آپ مطاع تھے، ہیں اور قیامت تک رہیں گے اور سنت کی شکل میں آپ کی اتباع اور پیروی فرض تھی، ہے اور قیامت تک رہے گی۔ ۹۔ قرآن کی طرح سنت اور حدیث بھی محفوظ ہے، ورنہ آپ کی اطاعت واتباع کا قرآنی حکم نا قابل عمل اور عبث قرار پائے گا۔ ۱۰۔ ایک غیر مسلم اللہ ورسول پر ایمان لانے اور ایمان نہ لانے میں آزاد ہے، اس کو ایمان کی دعوت تو دی جائے گی، مگر مجبور نہیں کیا جائے گا، کیونکہ مجبوری کے ایمان کا کوئی اعتبار نہیں ہے، لیکن جس کا دعویٰ ہے کہ وہ مومن اور مسلمان ہے اپنے اس دعویٰ کی رو سے وہ قرآن کے ساتھ حدیث اور سنت کو بھی اس کے بالکل مساوی درجہ میں ماخذ شرع ماننے کا پابند ہے اور قرآن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی طرح فرض قرار دیتا ہے اور یہ دونوں اطاعتیں قرآن وسنت دونوں کے احکام کی پابندی کر کے ہی وجود پا سکتی ہیں ، لہٰذا کسی بھی درجہ میں سنت یا حدیث کا انکار قرآن کا بھی انکار ہے۔ ۱۱۔ شاطبی کا یہ دعویٰ کہ سنت اپنے مفہوم ومدعا میں قرآن کی طرف لوٹتی ہے، اس لیے کہ وہ قرآن کی تشریع اوربیان کے سوا کچھ نہیں ہے، خود قرآن کی رو سے باطل ہے۔ سنت اور امام شافعی رحمہ اللہ: الطاف احمد اعظمی صاحب نے سنت کے صرف قرآن کی تفسیر وتشریع اور بیان ہونے پر بطور دلیل ایک قول امام شافعی رحمہ اللہ کی طرف منسوب بھی نقل کیا ہے پہلے میں یہ قول اور اس کا ترجمہ نقل کر دینا چاہتا ہوں ، پھر اس پر تبصرہ کر وں گا۔ ((کل ما حکم بہ رسول اللّٰہ صلي اللّٰه عليه وسلم فہو لما فہمہ من القرآن۔)) ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو حکم بھی دیا ہے وہ قرآن ہی سے ماخوذ ہے۔‘‘ اس قول پر کوئی تبصرہ کرنے سے پہلے یہ عرض کر دوں کہ: ’’حکم دیا ہے‘‘ ’’حکم بہ‘‘ کا ترجمہ نہیں ہے، بلکہ ’’امر بہ‘‘ کا ترجمہ ہے ’’حکم بہ‘‘ کا ترجمہ ہے: فیصلہ کیا ہے، اردو میں ہم جس چیز کو ’’حکم‘‘ کہتے ہیں ، عربی میں اس کے لیے ’’امر‘‘ کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ اس قول کی نسبت امام شافعی رحمہ اللہ کی طرف صحیح نہیں ہے، اگرچہ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی کتاب: ’’مقدمہ فی تفسیر القرآن‘‘ میں اس کا حوالہ دیا گیا ہے۔[1] اور یہ ان کا قول ہو بھی نہیں ہو سکتا، کیونکہ انہوں نے ’’الرسالہ‘‘ اور ’’الأم‘‘ میں سنت کی شرعی حیثیت کے بارے میں جو کچھ بیان کیا ہے یہ قول اس سے ٹکراتا ہے۔
[1] ص ۱۲۷