کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 120
اس آیت کا مفہوم اور مدلول سمجھنے کے لیے اسی سورت کی آیت نمبر ۵۹ پیش نظر رہنی چاہیے جس میں پہلے تو اللہ اور رسول کی الگ الگ اطاعتوں کا حکم دیا گیا ہے، پھر کسی معاملے میں نزاع اور جھگڑا ہو جانے کی صورت میں متنازع مسئلہ کو اللہ ورسول کی طرف لوٹانے اور پھیرنے کا حکم دیا گیا ہے: ﴿فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْئٍ فَرُدُّوْہُ اِلَی اللّٰہِ وَ الرَّسُوْلِ﴾ اور یہ فرما کر: ﴿اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ ﴾ اس کو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان کا تقاضا قرار دیا گیا ہے۔ یہاں یہ بتانا تحصیل حاصل ہے کہ اللہ تعالیٰ کے پاس کوئی مسئلہ لے جانا نہ پہلے ممکن تھا اور نہ آج ممکن ہے، لہٰذا اس سے مراد ’’قرآن کی عدالت‘‘ ہے، البتہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات پاک میں آپ سے رجوع کرنا ممکن تھا اور صحابہ کرام اپنے نزاعی مسائل آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر پیش بھی کرتے تھے، لیکن آپ کی وفات کے بعد ذاتی طور پر آپ سے رجوع کرنا ممکن نہیں رہا، جبکہ یہ شرعی حکم قائم ہے اور قیامت تک قائم وباقی رہے گا۔، لہٰذا اس حکم کی تعمیل صرف آپ کی سنت یا حدیث کی طرف رجوع کر کے ہی کی جا سکتی ہے اور سابقہ آیت میں اللہ تعالیٰ نے آپ کی مستقل اطاعت کا حکم دے بھی دیا ہے۔ اس حکم ربانی سے یہ بھی معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت یا حدیث محفوظ ہے، ورنہ یہ حکم ربانی ناقابل تعلیم ہوگا!!! ۵۔ ۴ ہجری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ میں سکونت پذیر یہودی قبیلہ بنو نضیر کی شر انگیزیوں کے نتیجے میں اس کا محاصرہ کر لیا اور صرف چند روز کے محاصرے کے بعد یہ قبیلہ اس شرط پر مدینہ چھوڑ دینے پر راضی ہو گیا کہ وہ اسلحوں کے سوا جو کچھ بھی اپنے اونٹوں پر لاد کر لے جا سکے گا لے جائے گا، بقیہ سازوں مان چھوڑ دے گا اس طرح کسی لڑائی کے بغیر اس قبیلہ کے اموال نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قبضہ میں آ گئے، کسی دشمن سے لڑائی کے بغیر جو مال قبضہ میں آئے اس کو ’’فَی‘‘ کہتے ہیں ، اس ’’فیَ‘‘ کے مال کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں میں تقسیم کر دیا جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب عزیز میں ایک واقعہ کے بجائے ایک شرعی قاعدہ اور ضابطہ کی صورت میں کیا ہے، ارشاد ربانی ہے: ﴿وَمَا آتَاکُمْ الرَّسُوْلُ فَخُذُوہُ وَمَا نَہَاکُمْ عَنْہُ فَانْتَہُوا﴾ (الحشر: ۷) ’’اور رسول تمہیں جو دے تو وہ لے لو اور جس سے تمہیں روکے باز رہو۔‘‘ قرآن کا یہ اصولی بیان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم اور فیصلہ سے متعلق ایک شرعی ضابطہ کی حیثیت رکھتا ہے جس کی دلیل یہ ہے کہ: ﴿مائَ اتٰکم﴾ کو اگر واقعہ کے تناظر میں دیکھا جائے اور لیا جائے تو اس کا مقابل ﴿مَا مَنَعَکُمْ﴾ ہونا چاہیے، جبکہ اس کے بالمقابل ﴿ مَا نَہَاکُمْ عَنْہُ ﴾ کی تعبیر اختیار فرمائی گئی ہے جس سے یہ حکم دینا مقصود ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے امر ونہی کی اطاعت کرو، یعنی اگرچہ یہ آیت ایک خاص واقعہ سے متعلق ہے، مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کی بجا آوری سے متعلق ایک شرعی قاعدہ کلیہ ہے۔ میں نے ابھی جو کچھ عرض کیا ہے اس کو مثال سے سمجھئے۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے میراث کا مسئلہ بیان کرنے کے بعد فرمایا ہے: