کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 119
سورۂ اعراف میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿قُلْ یٰٓا أَ یُّہَا النَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ اِلَیْکُمْ جَمِیْعَا الَّذِیْ لَہٗ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ یُحْیٖ وَیُمِیْتُ فَاٰمِنُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہِ النَّبِیِّ الْاُمِّیِّ الَّذِیْ یُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَکَلِمٰتِہٖ وَاتَّبِعُوْہُ﴾ (الاعراف: ۱۵۸) ’’کہہ دو اے لوگو! درحقیقت میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں آسمانوں اور زمین کی بادشاہی جس کی ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں وہ زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے، لہٰذا تم اللہ پر اور اس کے رسول، نبی امی پر ایمان لاؤ، جو اللہ اور اس کی باتوں پر ایمان رکھتا ہے اور اس کی پیروی کرو۔‘‘ ان دونوں آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کی مطلق اتباع اور پیروی کا حکم دیا ہے، یہ نہیں فرمایا ہے کہ رسول کی پیروی ان باتوں میں کرو جن کی اصل کتاب اللہ میں موجود ہو اور یہ معلوم ہے کہ سنت کی پیروی رسول ہی کی پیروی ہے۔ ۳۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی خلاف ورزی کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ نے یہ وعید سنائی ہے کہ اس کی پاداش میں وہ ان کو مبتلائے فتنہ اور مبتلائے عذائے کرے گا: ﴿فَلْیَحْذَرِ الَّذِیْنَ یُخَالِفُوْنَ عَنْ اَمْرِہِ اَنْ تُصِیبَہُمْ فِتْنَۃٌ اَوْ یُصِیبَہُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ﴾ (النور: ۶۳) ’’تو جو لوگ اس کی حکم عدول کرتے ہیں اس سے بچیں کے ان کو کوئی فتنہ اپنی لپیٹ میں لے لے یا ان کو کوئی درد ناک عذاب آلے۔‘‘ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ’’امر‘‘ کی اضافت اور نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کی ہے جس سے جہاں یہ ثابت ہونا ہے کہ قرآن کی رو سے آپ کا آمر وناہی ہونا ثابت ہے، وہیں یہ بھی ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوامر ونواہی اپنے حکم میں اللہ تعالیٰ ہی کے اوامر ونواہی کی طرح ہیں ۔ ۴۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے معاملات میں حاکم، قاضی اور فیصلہ کرنے والا نہ ماننے والا مومن نہیں ہے، حتیٰ کہ جو شخص آپ کے کسی حکم اور فیصلہ پر دل میں کوئی تنگی اور انقباض بھی محسوس کرے تو یہ دل ایمان سے خالی ہے: ﴿فَلَا وَ رَبِّکَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَاشَجَرَ بَیْنَہُمْ ثُمَّ لَایَجِدُوْا فِیْٓ اَنْفُسِہِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَیُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا﴾ (النساء: ۶۵) ’’پس نہیں ، تمہارے رب کی قسم وہ مومن نہیں ہو سکتے یہاں تک کہ تمہیں اپنے جھگڑوں میں اپنا حکم بنا لیں ، پھر تم جو فیصلہ کرو اس سے اپنے دلوں میں کوئی تنگی محسوس نہ کریں اور مکمل طور پر اسے تسلیم کر لیں ۔‘‘ غور فرمایئے، یہ حکم بیان کرنے سے پہلے رب رسول کی قسم اور ’’ لا‘‘ کے ذریعے اس کی تاکید فرما دی گئی ہے، تاکہ حکم کی اہمیت کا پہلے ہی سے احساس رہے۔