کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 117
۳۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری نبی اور رسول کی جو صفات تورات اور انجیل میں بیان کر دی تھیں اور وہ تھیں : ﴿یَاْمُرُہُمْ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْہٰہُمْ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ یُحِلُّ لَہُمُ الطَّیِّبٰتِ وَ یُحَرِّمُ عَلَیْہِمُ الْخَبٰٓئِثَ وَ یَضَعُ عَنْہُمْ اِصْرَہُمْ وَ الْاَغْلٰلَ الَّتِیْ کَانَتْ عَلَیْہِمْ ﴾ (الاعراف: ۱۵۷) ’’وہ ان کو نیکی کا حکم دیتا ہے اور انہیں برائی سے روکتا ہے اور ان کے لیے پاکیزہ چیزیں حلال کرتا ہے اور ان پر ناپاک چیزوں کو حرام دیتا ہے اور ان سے وہ بوجھ اور وہ طوق اتارتا ہے جو ان پر پڑے ہوئے تھے۔‘‘ یہ آیت یہ بتا رہی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کے مفسر ومبین ہونے کے علاوہ مستقل شارع بھی تھے۔ ام المؤمنین کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ فرائض اور صفات بھی آپ کے ’’خلق‘‘ میں داخل تھیں ، ہیں اور قیامت تک داخل رہیں گی، کیونک یہ سب قرآنی فرائض اور صفات ہیں ۔ معلوم ہوا کہ ام المؤمنین کے قول: ’’کان خلقہ القرآن‘‘ سے اس بات پر استدلال کہ سنت صرف قران کی تفسیر وتبیین ہے مستقل تشریع یا شرعی ماخذ نہیں ہے، خود قرآن کے خلاف ہے۔ اہل ایمان سے قرآن کا مطالبہ: اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں ایک سے زیادہ جگہوں پر اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مطلق اور غیر مشروط اطاعت اور اتباع کا حکم دیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ حدیث یا سنت اسی طرح ماخذ شریعت ہے جس طرح قرآن اور اس کو قرآن کے مساوی شرعی ماخذ نہ ماننے والے یا اس کو قرآن کی تفسیر وتبیین ماننے والے، لیکن مستقل تشریع نہ ماننے والے دونوں خود قرآن کے منکر ہیں اور قرآن پر ان کے ایمان کا دعویٰ محض مجبوری ہے، ورنہ وہ خود اپنے پیروکاروں کے نزدیک مسلمان نہیں رہ جائیں گے۔ ۱۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت مستقل بالذات ہے اللہ کی اطاعت کے ساتھ مقید نہیں ہے: ﴿یٰٓأَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ﴾ (النساء: ۵۹) ’’اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول کی۔‘‘ اس ارشاد الٰہی کی اہمیت کو سمجھنے کے لیے اسلوب بیان کو سمجھ لینا ضروری ہے۔ ۱۔ اگر کسی حکم کو بیان کرنے سے پہلے حرف ندا لایا جائے یا کلام کا آغاز حرف ندا سے کیا جائے تو اس حکم میں تاکید مقصود ہوتی ہے۔ ۲۔ منادی کو ایمان سے موصوف قرار دینے کا مقصد یہ بتانا ہوتا ہے کہ جو حکم بیان کیا جانے والا ہے اس کی تعمیل ایمان کا تقاضا ہے اس تناظر میں اس حکم کو نہ ماننے سے ایمان سلب ہو جاتا ہے۔ ۳۔ ﴿أطیعوا﴾ ’’أطاع یُطیع إطاعۃ‘‘ سے فعل امر جمع مذکر مخاطب کا صیغہ ہے جس میں اللہ ورسول پر ایمان لانے