کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 116
کا خلق‘‘ ہے لہٰذا آپ نے لازماً قرآن میں بیان کردہ اللہ تعالیٰ کے احکام کی حرف بحرف تعمیل کی، ورنہ آپ نعوذ باللہ ادائے رسالت میں کوتاہی کے مرتکب ہوتے!!! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرائض منصبی قرآن کی روشنی میں : ۱۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی نازل کردہ کتاب، قران کی آیتیں لوگوں کو پڑھ کر سناتے تھے، اور انہیں کتاب کے مضامین اور معانی کی بھی تعلیم دیتے تھے اور حدیث کی بھی، اور ان کو اپنے قول وفعل سے پاک بھی کرتے تھے اور بناتے اور سنوارتے بھی تھے۔ ﴿ہُوَ الَّذِیْ بَعَثَ فِی الْاُمِّیِّٖنَ رَسُوْلًا مِّنْہُمْ یَتْلُوْا عَلَیْہِمْ اٰیٰتِہٖ وَیُزَکِّیہِمْ وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَاِِنْ کَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلَالٍ مُّبِیْنٍ﴾ (الجمعۃ: ۲) ’’وہی ہے جس نے اَن پڑھوں میں انہیں میں سے ایک رسول بھیجا جو ان کو اس کی آیتیں پڑھ کر سناتا ہے، اور ان کو پاک کرتا ہے اور ان کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دتیا ہے، جبکہ درحقیقت اس سے پہلے وہ کھلی گمراہی میں تھے۔‘‘ ۲۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرض منصبی یہ بھی تھا کہ آپ قرآن کی تفسیر وتبیین کریں : ﴿وَ اَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیْہِمْ﴾ (النحل: ۴۴) ’’اور ہم نے تمہاری طرف ذکر کو نازل کیا ہے تاکہ تم لوگوں سے وہ بیان کر دو جو ان کی طرف نازل کیا گیا ہے۔‘‘ نبی صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کی یہ تفسیر وتبیین اپنی صوابدید اور بصیرت سے نہیں کرتے تھے، بلکہ وحی الٰہی کی روشنی میں اور اس کے بیان کے مطابق کرتے تھے: ﴿وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْہَوٰیo اِِنْ ہُوَ اِِلَّا وَحْیٌ یُّوحٰی﴾ (النجم: ۳۔۴) ’’وہ خواہش سے نہیں بولتا وہ تو صرف وحی ہے جو اس کو کی جاتی ہے۔‘‘ ﴿ثُمَّ اِِنَّ عَلَیْنَا بَیَانَہٗ﴾ (القیامہ: ۱۹) ’’پھر در حقیقت اسے بیان کر دینا ہمارے ذمہ ہے۔‘‘ ﴿اِنَّآ اَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ الْکِتٰبَ بِالْحَقِّ لِتَحْکُمَ بَیْنَ النَّاسِ بِمَآ اَرٰیکَ اللّٰہُ﴾ (النساء: ۱۰۵) ’’درحقیقت یہ کتاب ہم نے تمہاری طرف حق کے ساتھ نازل کی ہے تاکہ تم لوگوں کے درمیان اس کے مطابق فیصلہ کرو جو اللہ نے تمہیں دکھایا ہے۔‘‘ ﴿بِمَآ اَرٰیکَ اللّٰہُ﴾ ’’أی بما علمک اللّٰہ وأعلمک‘‘ یعنی جو اللہ نے تمہیں تعلیم دی ہے یا جو حکم بتایا ہے اس کے مطابق، نہ کہ اپنی ذاتی رائے اور علم کے مطابق۔