کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 113
’’میں نے در حقیقت ایک عورت کو پایا جو ان پر حکومت کر رہی ہے اور اسے ہر چیز میں سے حصہ دیا گیا ہے۔‘‘ یہ ہد ہد پرندہ کا اپنا تاثر ہے اور اس نے ﴿مِنْ کُلِّ شَیْئٍ﴾ سے اسباب حکمرانی، یا ذرائع حکمرانی مراد لیے ہیں ، نہ کہ دنیا کی ہر شے، ورنہ یہ بات معلوم ہے کہ سلیمان علیہ الصلٰوۃ والسلام کو ملکۂ سبا سے زیادہ طاقت حاصل تھی اور وہ اس سے کہیں زیادہ اسباب حکمرانی کے مالک تھے۔ دوسری آیت سورۂ انعام کی ہے جس کے فقرہ: ﴿مَا فَرَّطْنَا فِی الْکِتٰبِ مِنْ شَیْئٍ﴾ سے شاطبی نے حدیث کے صرف قرآن پاک کی تفسیر اور بیان ہونے پر استدلال کیا ہے جو غلط ہے، اس لیے کہ اس میں حدیث یا سنت کے تفسیر قرآن ہونے یا بیان قرآن ہونے کا کوئی ذکر نہیں ہے اور سلسلہ بیان اور نظم کلام کی روشنی میں اس کا کوئی موقع بھی نہیں ہے۔ اس فقرہ میں ’’الکتاب‘‘ سے اگر ’’لوح محفوظ‘‘ کو مراد لیا جائے تو ﴿مِنْ شَیْئٍ﴾ کا مطلب اور ہوگا اور قرآن مراد لینے سے کچھ اور سلسلہ کلام کی روشنی میں الکتاب سے لوح محفوظ اور قرآن دونوں مراد لینے کی گنجائش ہے، البتہ دونوں صورتوں میں ﴿مِنْ شَیْئٍ﴾ کا مدلول اور معنی مختلف ہوگا۔ الکتاب سے ’’لوح محفوظ‘‘ مراد لینے کی صورت میں ﴿مَا فَرَّطْنَا فِی الْکِتٰبِ مِنْ شَیْئٍ﴾ ہم نے ’’کتاب‘‘ میں کسی طرح کی کوئی کوتاہی نہیں کی ہے، یعنی زمین، اور فضائی مخلوقات اور چوپایوں ، اور وحشی درندوں اور پرندوں کی کوئی بھی قسم ایسی نہیں ہے جو تمہاری طرح کی امت نہ ہو، ان سب کی پیدائش، ان کے رزق اور ان کی پرورش وحفاظت کا کوئی مسئلہ ایسا نہیں ہے جو ہماری قدرت ومشیئت کے مطابق نافذ نہ ہو رہا ہو، کوئی چھوٹی سی چھوٹی چیز اور اس سے متعلقہ کوئی بات بھی لوح محفوظ میں درج ہونے سے نہیں رہی ہے۔ اور اگر الکتاب سے قرآن پاک مراد ہے تو اس فقرے کے معنی ہوں گے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حسی آیت (معجزہ) طلب کرنے والوں کے دل کی آنکھیں اگر کھلی ہوئی ہیں تو اللہ تعالیٰ کی الوہیت اور ربوبیت اور یوم آخرت کے وقوع پذیر ہونے کی کونی یا شرعی آیت اور نشانی ایسی نہیں ہے جو قرآن میں بیان ہونے سے رہ گئی ہو۔ (آیت ۳۷ اور ۳۸) اب اگر کوئی بدراہ اور منکر حدیث ان دونوں آیتوں سے یہ استدلال کر ے کہ قرآن پاک میں تمام تفاصیل موجود ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرائض منصبی میں نہ قرآن کی تفسیر وتبیین داخل ہے نہ مستقل تشریع، جیسا کہ موجودہ دور کے اہل قرآن اور منکرین حدیث کا طرز عمل ہے تو ان آیتوں کے دائرے میں تو اس کا دعویٰ درست ہوگا، مگر وہ ان آیتوں کا منکر قرار پائے گا جن میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مبین قرآن بھی قرار دیا گیا اور مستقل شارع بھی اس طرح ایسا شخص بنو اسرائیل کے ان لوگوں کے مانند ہوگا جن کا ذکر اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں کیا ہے: ﴿اَفَتُؤْمِنُوْنَ بِبَعْضِ الْکِتٰبِ وَ تَکْفُرُوْنَ بِبَعْضٍ فَمَا جَزَآئُ مَنْ یَّفْعَلُ ذٰلِکَ مِنْکُمْ اِلَّا خِزْیٌ فِیْ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ یُرَدُّوْنَ اِلٰٓی اَشَدِّ الْعَذَابِ وَ مَا اللّٰہُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ﴾ (البقرۃ: ۸۵)