کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 112
’’اور جس دن ہم ہر امت میں ان پر انہی میں سے ایک گواہ کھڑا کریں گے اور تم کو ان پر گواہ بنا کر لائیں گے، اور ہم نے تم پر کتاب نازل کی ہے جو ہر چیز کا نہایت واضح بیان ہے اور مسلمانوں کے لیے ہدایت ورحمت اور خوش خبری ہے۔‘ ‘ اس آیت مبارکہ میں ﴿تِبْیَانًا لِّکُلِّ شَیْئٍ﴾ سے مراد امرو ونہی، حلال وحرام اور اور حدود واحکام کا بیان ہے جن کو جاننے کا ایک انسان محتاج ہے اور قیامت کے دن ہر انسان سے جن کے بارے میں سوال ہوگا، اور ہر امت سے ایک شخص کو گواہ بنا کر کھڑا کیا جائے گا جو یہ گواہی دے گا کہ ہر امت میں بھیجے جانے والے رسول نے اس کو اللہ کا پیغام بے کم وکاست پہنچا دیا ہے، اور پھر آخر میں اللہ تعالیٰ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ان تمام امتوں پر گواہ بنا کر کھڑے کریں گے۔ آیت میں ﴿تِبْیَانًا لِّکُلِّ شَیْئٍ﴾ سے مراد وہ بیان نہیں ہے جس کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سونپی تھی، کیونکہ یہ مراد لینے کی صورت میں اس آیت اور اسی سورت کی سابقہ آیت: ﴿وَ اَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیْہِمْ﴾ میں تعارض ہو جائے گا جس سے اللہ تعالیٰ کا کلام اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث پاک ہے۔ دراصل قرآن کا بیان واضح ہونے کے باوجود مجمل ہے، جبکہ حدیث کا بیان مفصل ہے۔ قرآن کے اس مجمل بیان کی دو قسمیں ہیں : ۱۔ نماز، زکواۃ، حج اور روزہ کا حکم، عدل وانصاف، نیکو کاری، اور رشتہ داروں کو ان کے حقوق ادا کرنے کا حکم، برے کاموں سے منع کرنا نا پاک چیزوں اور لوگوں کے اموال پر نا جائز قبضہ کی حرمت وغیرہ۔ ۲۔ قرآن کے مجمل بیان کی دوسری قسم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت وپیروی، اور آپ کے ذریعہ ملنے والے تمام اوامر کی تعمیل اور جن چیزوں سے آپ نے منع فرمایا ہے ان سے باز رہنا وغیرہ۔ قرآن میں کل شیء کی تعبیر کا مفہوم: قرآن پاک میں ﴿کُلِّ شَیْئٍ﴾ ’’ہر چیز‘‘ کی تعبیر اگرچہ عام ہے، لیکن سلسلہ کلام کی روشنی میں یہ خاص کے مفہوم میں ہوتی ہے: مثال کے طور پر ’’ذی القرنین‘‘ کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿اِنَّا مَکَّنَّا لَہٗ فِی الْاَرْضِ وَ اٰتَیْنٰہُ مِنْ کُلِّ شَیْئٍ سَبَبًا﴾ (الکہف: ۸۴) ’’در حقیقت ہم نے اسے زمین میں اقتدار بخشا اور اسے ہر چیز میں سے ایک ذریعہ عطا کیا تھا۔‘‘ تو آیت میں مذکورہ ﴿مِنْ کُلِّ شَیْئٍ﴾ سے مراد ہر وہ چیز ہے جس کی شہروں کو فتح کرنے اور دشمنوں کو زیر کرنے میں ضرورت پڑتی ہے۔ یہ مطلب نہیں ہے کہ ذی القرنین کو دنیا کی تمام چیزیں عطا کر دی گئی تھیں ۔ اس طرح ملکۂ سبا کے بارے میں ہے: ﴿اِِنِّی وَجَدتُّ امْرَاَۃً تَمْلِکُہُمْ وَاُوْتِیَتْ مِنْ کُلِّ شَیْئٍ﴾ (النمل: ۲۳)