کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 111
کرنے کا حکم دُور یا قریب سے نہیں بیان کیا گیا ہے، لیکن حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھتیجی اور پھوپھی اور بھانجی اور خالہ کو بھی ایک ساتھ جمع کرنے کو حرام قرار دیا ہے۔‘‘ [1] ان دونوں مثالوں سے بصراحت یہ معلوم ہوا کہ سنت جہاں قرآن میں موجود اجمال حکم کی تفصیل ہے، وہیں وہ مستقل اور قرآن کے علاوہ تشریعی ماخذ بھی ہے جس کی نہایت واضح اور نا قابل تاویل دلیل سورۂ اعراف کی مذکورہ بالا آیت کریمہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے صریح لفظوں میں امرو نہی اور تحلیل وتحریم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کیا ہے، اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ مستقل تشریعی حیثیت تسلیم نہ کی جائے تو اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد مبارک نعوذ باللہ بے معنی ہو جائے گا: ﴿مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰہَ﴾ ’’جس نے رسول کی اطاعت کی در حقیقت اس نے اللہ کی اطاعت کی۔‘‘ (سورۂ نساء: ۸۰) کیونکہ اللہ کے دیے ہوئے اوامر ونواہی میں رسول کی اطاعت اللہ کی اطاعت ہے رسول کی اطاعت نہیں ، لہٰذا رسول کی اطاعت اسی وقت ہوگی جب ان احکام میں اس کی اطاعت کی جائے جو قرآن کے علاوہ ہیں ۔ اس سے یہ ثابت ہوا کہ نہ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سارے اقوال وافعال کتاب اللہ کی شرح وبیان میں محصور ہیں ، اور نہ ساری سنت صرف قرآن کے مجمل کی تفصیل، اس کی مشکل کے بیان اور اس کے مختصر کی وضاحت سے عبارت ہے، بلکہ یہ بھی ہے اور مستقل تشریع بھی، البتہ شرعی ماخذ ہونے کے اعتبار سے دونوں کا درجہ ایک ہے، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی اور اپنے نبی کی اطاعت کا حکم یکساں اور مساوی درجہ میں دیا ہے، فقہاء نے قرآن وحدیث سے حاصل ہونے والے احکام میں جو فرق اور درجہ بندی کی ہے وہ ان کی خانہ ساز ہے قرآن میں اس کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ ۳۔ شاطبی نے سنت کے صرف قران کی تفسیر اور بیان ہونے پر جن دوسری دو آیتوں سے استدلال کیا ہے ایک اعتبار سے تو وہ دونوں سنت یا حدیث کے قرآن کی تفسیر اور بیان کی نفی کرتی ہیں اور دوسرے اعتبار سے قرآن کی ان آیتوں کے مطابق ہیں جن میں یہ خبری دی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن اس لیے نازل کیا تھا کہ آپ اس کے احکام کو لوگوں سے تفصیلاً بیان کر دیں ، لیکن ان سے مجموعی طور پر، یا کسی آیت سے انفرادی طور پر قطعاً یہ مفہوم نہیں نکلتا کہ سنت یا حدیث صرف قران کی تفسیر ہے اس کے سوا کچھ نہیں ، یہ مفہوم زبر دستی نکالنے کی کوشش کی گئی ہے آیتوں کے الفاظ یا طرز بیان میں اس مفہوم کی کوئی گنجائش نہیں ہے، تفصیلات درج ذیل ہیں : شاطبی نے ’’قرآن کو ہر چیز کا نہایت واضح بیان قرار دے کر‘‘ جو آیت مراد لی ہے وہ سورۂ نحل کی آیت نمبر ۸۹ ہے جس کے الفاظ ہیں : ﴿وَ یَوْمَ نَبْعَثُ فِیْ کُلِّ اُمَّۃٍ شَہِیْدًا عَلَیْہِمْ مِّنْ اَنْفُسِہِمْ وَ جِئْنَا بِکَ شَہِیْدًا عَلٰی ہٰٓؤُلَآئِ وَ نَزَّلْنَا عَلَیْکَ الْکِتٰبَ تِبْیَانًا لِّکُلِّ شَیْئٍ وَّ ہُدًی وَّ رَحْمَۃً وَّ بُشْرٰی لِلْمُسْلِمِیْنَ﴾ (النحل: ۸۹)
[1] بخاری: ۵۱۰۸، ۵۱۰۹، ۵۱۱۰، مسلم: ۱۴۰۸