کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 110
۱۔ انہوں نے پہلی جس آیت سے یہ استدلال کیا ہے کہ سنت تمام کی تمام قرآن کا بیان ہے وہ سورۂ نحل کی یہ آیت ہے: ﴿وَ اَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیْہِمْ﴾ (النحل: ۴۴) ’’اور ہم نے تمہاری طرف ذکر کو نازل کیا ہے تاکہ تم لوگوں سے وہ بیان کردہ جو ان کی طرف نازل کیا گیا ہے۔‘‘ یہ آیت اور اس کا صحیح ترجمہ آپ کے سامنے ہے اور اس میں جو بات فرمائی گئی ہے وہ صرف یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اس لیے نازل کیا ہے کہ آپ اس کے احکام کو اور اس میں موجود وعد وعید کو اپنے قول وفعل سے لوگوں کے سامنے واضح کر دیں اور بیان کر دیں ۔ اس حکم قرآنی سے یہ لازمی نتیجہ بھی نکلا کہ اللہ کی کتاب میں جو احکام مجمل اور غیر مفصل ہیں ان کی تفصیلات بیان کرنے کا مجاز صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔ لیکن اس آیت میں اس مر کی جانب کوئی اشارہ تک نہیں کیا گیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام اقوال اور افعال کتاب اللہ کی شرح وبیان کے دائرہ میں محصور اور بند تھے، یا دوسرے لفظوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرض منصبی صرف یہ تھا کہ آپ اس کی نازل کر دہ کتاب کے الفاظ ومعانی کی توضیح وتشریح کریں اس تناظر میں حدیث صرف قرآن کا بیان اور تفسیر ہے، میں نے جو کچھ عرض کیا ہے شاطبی نے آگے اس کی تصریح کر دی ہے، فرماتے ہیں : ((فلا تجد فی السنۃ أمراً إلا والقرآن قد دل علی معناہ دلالۃ إجمالیہ اَوتفصیلیۃ۔)) ’’تم سنت میں ایسا کوئی معاملہ نہیں پاؤ گے جس کے مفہوم پر قرآن اجمالی یا تفصیلی طور پر دلالت نہ کرتا ہو۔‘‘ تو یہ دعویٰ ایسا ہے جس کی تائید نہ تو زیر بحث آیت سے ہوتی ہے اور نہ ذخیرۂ حدیث سے۔ جہاں تک آیت زیر استدلال کا تعلق ہے تو اس سے یہ مفہوم نہیں نکلتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرض منصبی صر ف یہ تھا کہ آپ قرآن کے اجمال کو کھول کر بیان کر دیں ‘‘ اگر یہ بیان کرنا مقصود ہوتا تو یوں فرمایا جاتا: ہم نے تم کو اس لیے بھیجا ہے کہ تم لوگوں کو وہ احکام کھول کر بیان کر دو جو تمہارے واسطہ سے ان کے لیے نازل کیے گئے ہیں ‘‘ اور جب ایسا نہیں فرمایا گیا، تو حدیث کو صرف قرآن کے بیان کے دائرہ میں بند کرنے کی بات من گھڑت قرار پائی اور ایسی آیت سے اس پر استدلال بے محل ٹھہرا جس میں ایسی کوئی بات نہیں فرمائی گئی ہے۔ ۲۔ صحیح احادیث کا جو ذخیرہ موجود ہے اس میں بھی جہاں ایسی حدیثیں ہیں جن میں قرآنی احکام کی تفصیل بیان کی گئی ہے جیسے نماز کے اعمال کہ نماز کا حکم تو قرآن میں منصوص ہے، مگر اس کے اعمال نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان کیے ہیں ، لیکن اسی کے ساتھ ایسی بے شمار حدیثیں بھی ہیں جن میں ایسے احکام بیان کیے گئے ہیں جن کا قرآن میں کوئی ذکر نہیں آیا ہے، مثال کے طور پر قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے ایک شخص کے نکاح میں دو بہنوں کو جمع کرنا حرام قرار دیا ہے، ﴿وَ اَنْ تَجْمَعُوْا بَیْنَ الْاُخْتَیْنِ﴾ ’’یعنی (تم پر یہ حرام کر دیا گیا ہے کہ تم دو بہنوں کو جمع کرو۔‘‘ (النساء: ۲۳) قرآن پاک میں بہنوں کے علاوہ کسی اور قسم کی دو عورتوں کو بیک وقت ایک شخص کے نکاح میں جمع