کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 109
سے ان کے اس دعوے کی تائید نہیں ہوتی اور اعظمی صاحب نے ان کو سمجھے بغیر یہ محسوس کر لیا کہ یہ قول تو ان کی ہرزہ سرائیوں کے حق میں ہے، اور بغلیں بجانے لگے۔
جہاں تک شاطبی کی پہلی غلطی ہے تو جیسا کہ میں پہلے عرض کر چکا ہوں یہ ہے کہ انہوں نے حدیث کو قرآن کی شرح وبیان تک محدود کر دیا دوسرے لفظوں میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرض منصبی صرف یہ تھا کہ آپ کتاب اللہ کی تفسیر وتوضیح کرتے جائیں اس کے آگے آپ کچھ اور نہیں تھے، حالانکہ اپنے اس قول پر خود آگے انہوں نے جو اشکالات پیش کیے ہیں ان میں ان کے اس قول یا دعوے سے زیادہ وزن ہے اور ان سے بصراحت یہ معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو شرح قرآن اور بیانِ قرآن کے ساتھ ساتھ مستقل تشریعی حیثیت بھی حاصل تھی۔
سورۂ اعراف میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿یَاْمُرُہُمْ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْہٰہُمْ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ یُحِلُّ لَہُمُ الطَّیِّبٰتِ وَ یُحَرِّمُ عَلَیْہِمُ الْخَبٰٓئِثَ وَ یَضَعُ عَنْہُمْ اِصْرَہُمْ وَ الْاَغْلٰلَ الَّتِیْ کَانَتْ عَلَیْہِمْ ﴾ (الاعراف: ۱۵۷)
’’وہ ان کو نیکی کا حکم دیتا ہے اور انہیں برائی سے روکتا ہے اور ان کے لیے پاکیزہ چیزیں حلال کرتا ہے اور ان پر ناپاک چیزوں کو حرام قرار دیتا ہے اور ان سے ان کا وہ بوجھ اور وہ طوق اتارتا ہے جو ان پر پڑئے تھے۔‘‘
غور کیجئے! اللہ تعالیٰ نے کتنے واضح اور دو ٹوک طریقے سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے تشریعی مناصب بیان فرمائے ہیں اور یہ صراحت کر دی ہے کہ امر ونہی اور تحلیل وتحریم صرف وہی نہیں ہے جو قرآن میں بیان ہوئی ہے، بلکہ جو کچھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام یا حلال قرار دیا ہے اور جن چیزوں کا حکم دیا ہے اور جن چیزوں سے منع فرمایا ہے وہ بھی قرآن کے حرام یا حلال اور قرآن کے امر ونہی کی طرح ہے، مختصر لفظوں میں آپ کتاب اللہ کے شارح ہونے کے ساتھ مستقل بالذات شارع بھی تھے۔
میرے خیال میں صرف یہی ایک آیت ایسے تمام دعووں اور نظریات کی جڑ کاٹ دیتی ہے کہ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ ارشاد فرمایا وہ سب قرآن ہی سے ماخوذ ہے‘‘ یا یہ کہ حدیث یا سنت صرف قرآن کی شرح وبیان سے عبارت ہے۔‘‘
یہ آیت مبارکہ یہ بھی اعلان کر رہی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ یہ فرائض رسالت محض ’’بصیرت نبوی‘‘ یا ’’ملکۂ نبوت‘‘ سے انجام نہیں دیتے تھے، بلکہ ’’وحی‘‘ کی بنیاد پر انجام دیتے تھے اس طرح آپ کی شرح وتبیین قرآن بھی مبنی بر وحی تھی اور قرآن کے علاوہ آپ کی مستقل اور علیحدہ تشریح بھی مبنی بر وحی تھی، البتہ ان دونوں میں سے کوئی بھی چیز قرآن کے خلاف نہیں تھی: ﴿وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْہَوٰیo اِِنْ ہُوَ اِِلَّا وَحْیٌ یُّوحٰی﴾ اسی وجہ سے آپ کی اطاعت بھی غیر مشروط تھی اور اتباع بھی۔
شاطبی نے یہ دعویٰ کرنے کے بعد حدیث یا سنت کے قرآن کی تفصیل، بیان اور توضیح کے دائرے میں بند ہونے پر جن آیتوں سے استدلال کیا ہے، آئیے یہ دیکھیں کہ کیا یہ واقعتا ان کے مدعا کی تائید کر رہی ہیں ؟: