کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 108
کیا تھا، میں نے ہر ہر لفظ کا ترجمہ کر دیا ہے۔ اعظمی صاحب نے یہ عبارت نقل کرنے سے قبل جو یہ دعویٰ کیا ہے کہ علامہ شاطبی نے بالکل صحیح لکھا ہے‘‘ اس پر میرا پہلا تبصرہ یہ ہے کہ شاطبی نے اس پوری عبارت میں جو دعویٰ کیا ہے وہ بھی غلط اور امر واقعہ کے خلاف ہے اور اس دعویٰ کی صحت پر قرآن کی جن آیتوں سے استدلال کیا ہے وہ استدلال بھی ان کے اس دعویٰ کے خلاف ہے اور اعظمی صاحب نے اس عبارت کی صحت کا جو حکم لگایا ہے وہ بھی ان کے حق میں نہیں ہے، اس لیے کہ امام شاطبی حدیث واحد کو حجت بھی مانتے ہیں اور وحی بھی؟!! حدیث یا سنت کے قرآن کی تفسیر، شرح اور بیان ہونے کے کوئی بھی صحیح العقیدہ مسلمان خلاف نہیں ہے وہ جس چیز کے سخت خلاف ہے وہ یہ کہ حدیث یا سنت صرف قرآن کی تفسیر وبیان ہے، اس سے زیادہ کچھ نہیں ، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کے مفسر اور شارح ہونے کے علاوہ کچھ نہیں تھے، اور ایک صحیح العقیدہ اور اللہ تعالیٰ ہی کو معبود حقیقی اور محمد بن عبداللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کا رسول ماننے والا مسلمان مذکورہ دعویٰ کے خلاف اس لیے ہے کہ یہ قرآنی صراحتوں سے متعارض ہے؛ قرآن جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آمر وناہی قرار دیتا ہے وہیں وہ بصراحت تحلیل وتحریم کو بھی آپ کی طرف منسوب کرتا ہے، مختصر طور پر یہ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کے شارح ہونے کے ساتھ ساتھ شارع، حاکم اور قاضی بھی تھے اور ہیں ؛ اپنی حیات پاک میں اپنی ان تمام حیثیوں میں آپ مطاع تھے اور اس دنیا سے رحلت کر جانے کے بعد آپ کی محفوظ حدیث اور سنت اسی طرح شرعی ماخذ ہے جس طرح قرآن شرعی ماخذ ہے اور قران کو محفوظ ماننے کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قول، فعل اور تقریر کی صورت میں جس چیز کا نام حدیث یا سنت ہے وہ بھی محفوظ ہو میری اس بات سے منکرین حدیث یا حدیث کو مشروط حجت ماننے والوں یا حدیث کو صرف قرآن کی شرح وتفسیر اور بیان قرار دینے والوں کے نیچے زمین ہل جائے یا نہ ہلے، اگر کسی کے پاس قران سے اس کے خلاف کچھ ہے تو وہ پیش کرے، ان شاء اللہ میں ’’حدیث واحد سے قرآن پر اضافہ‘‘ کے تحت اس مسئلہ کو واضح کروں گا۔ اعظمی صاحب نے جو یہ فرمایا ہے کہ ’’اگر کوئی قول یا فعل جو آپ کی طرف منسوب کیا گیا ہے قرآن کی کسی نص کے خلاف ہو تو وہ لاریب رسول کا قول اور فعل نہیں ہو سکتا‘‘ تو یہ ان کی بد حواسی کا غماز ہے، ورنہ قرآن وحدیث میں اختلاف اور تعارض کا ذکر بے وقت کی راگنی ہے، کیونکہ دونوں میں اختلاف ہو ہی نہیں سکتا، محال ہے۔ شاطبی کی لغزش: شاطبی نے اس عبارت میں دو نہایت بڑی غلطیاں اور لغزشیں کی ہیں ؛ انہوں نے پہلی غلطی یہ کی ہے کہ حدیث یا سنت کو قرآن پاک کے مجمل کی تفصیل، اس کی مشکل کے بیان اور اس کے مختصر کی وضاحت کے دائرے میں بند کر دیا ہے اور دوسری غلطی یہ کی ہے کہ اپنے اس دعوے کی تائید میں جن قرآنی آیتوں اور جس حدیث سے استدلال کیا ہے ان