کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 107
أیضا: فکل ما دل علی أن القرآن ہو کلیۃ الشریعۃ وینبوع لہا، فہو دلیل علی ذلک لأن اللّٰہ قال: ﴿وإنک لعلی خُلُق عظیم﴾ وفسرت عائشۃ ذلک ’’بأن خُلُقہ القرآن واقتصرت فی خلقہ علی ذلک، فدل علی أن قولہ وفعلہ وإقرارہ راجع إلی القرآن، لأن الخلق محصور فی ہذہ الآشیاء، ولآن اللّٰہ جعل القرآن تبیانا لکل شئی؛ فیلزم من ذلک أن تکون السنۃ حاصلۃ فیہ فی الجملۃ لأن الأمر والنہی أول ما فی الکتاب، ومثلہ قولہ: ما فرطنا فی الکتاب من شیء، وقولہ: ﴿الیوم أکملت لکم دینکم﴾ وہو یرید بإنزال القرآن؛ فالسنۃ إذاً فی محصول الأمر بیان لمافیہ، وذلک معنی کونہا راجعۃ إلیہ۔)) ’’سنت اپنے معنی میں کتاب کی طرف لوٹتی اور رجوع کرتی ہے، کیونکہ وہ اس کے مجمل حکم کی تفصیل، بمشکل سمجھ میں آنے والے معاملہ کا بیان اور مختصر مسئلہ کی وضاحت ہے۔ ایسا اس لیے ہے کہ سنت قرآن کا بیان ہے جس پر اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد دلیل ہے: اور ہم نے تمہاری طرف ذکر کو نازل کیا ہے تاکہ تم لوگوں سے وہ بیان کرو جو ان کی طرف اتارا گیا ہے۔ (سورۂ نحل: ۴۴) ’’لہٰذا تم سنت میں ایسا کوئی معاملہ نہیں پاؤ گے جس کے مفہوم پر قرآن اجمالی یا تفصیلی طور پر دلالت نہ کرتا ہو، اور یہ بھی کہ ہر وہ چیز جو اس امر پر دلالت کرتی ہو کہ قرآن ہی شریعت کا قاعدہ عامہ اور اس کا سرچشمہ ہے تو وہ اس پر دلیل ہے، کیونکہ اللہ کا ارشاد ہے: ’’اور در حقیقت تم نہایت اعلیٰ اخلاق پر ہو‘‘ (سورۂ قلم: ۴) عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس کی تفسیر یہ کی ہے کہ آپ کا خلق قرآن ہے اور آپ کے اخلاق کے بیان میں اسی قول پر اکتفا کیا ہے جس سے اس امر پر دلالت ہوتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا قول، فعل اور تقریر قرآن کی طرف رجوع کرنے والی ہے، اس لیے کہ خلق انہیں امور کے دائرہ میں گھرا ہوتا ہے، اور چونکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کو ہر چیز کا نہایت واضح بیان بنایا ہے اس سے یہ لازم آتا ہے کہ اجمالی طور پر سنت قرآن میں موجود ہو، یہ اس لیے بھی کہ قرآن میں امر ونہی سر فہرست ہیں جس کی مثال اللہ کا یہ قول ہے: ہم نے کتاب میں کسی چیز کی کمی نہیں چھوڑی ہے۔ (سورۂ انعام: ۳۸) اسی طرح اس کا یہ ارشاد: آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لیے مکمل کر دیا۔ (سورۂ مائدہ: ۳) اس سے اس کی مراد قرآن نازل کرنا ہے، لہٰذا نتیجہ بحث یہ نکلا کہ سنت قرآن کا بیان ہے، اور یہی سنت کے اس کی طرف رجوع کرنے اور لوٹنے کے معنی ہیں ۔‘‘[1] اعظمی صاحب نے شاطبی کی عبارت کا جو ترجمہ کیا تھا اس کو سلیس اور رواں رکھنے کے لیے بعض الفاظ کا ترجمہ نہیں
[1] ص ۳۱۴۔ ۳۱۹، ج ۴