کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 106
دلالت کرتا ہے: ﴿قَدْ نَرٰی تَقَلُّبَ وَجْہِکَ فِی السَّمَآئِ فَلَنُوَلِّیَنَّکَ قِبْلَۃً تَرْضٰہَا﴾ (البقرۃ: ۱۴۴) ’’یقینا ہم تمہارے چہرہ کا بار بار آسمان کی طرف پھرنا دیکھ رہے ہیں ، تو ہم تمہیں اسی قبلہ کی طرف پھیرے دیتے ہیں جسے تم پسند کرتے ہو۔‘‘ نبی صلی اللہ علیہ وسلم صرف مفسر قرآن تھے؟ جو لوگ بصراحت حدیث کا انکار نہیں کرتے اور بعض حدیثوں پر، جو ان کے معیار تحقیق کے مطابق صحیح ہیں عمل کو ضروری یا جائز سمجھتے ہیں ، وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو صرف مفسر قرآن یا شارح قرآن مانتے ہیں ، اوپر علامہ سیّد سلیمان ندوی صاحب سیرت النبی کی رائے اور اس پر تبصرہ گزر چکا ہے۔ الطاف اعظمی اس میدان میں دو قدم آگے ہیں ، یہ حدیث کو سرے سے ’’وحی‘‘ ہی نہیں مانتے؟ ان کا دعویٰ ہے کہ ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال واعمال دراصل قران کے اصولی احکام کی عملی تبیین ہیں اور یہ کام نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بصیرت نبوی کے مطابق انجام دیا تھا۔[1] ان کے اس دعوی کا تفصیلی جائزہ لے کر اس کا باطل ہونا دکھا چکا ہوں ۔ اپنے اس مضمون کے آخری فقرے سے پہلے کے فقرے میں ایک مستند محقق کے لب ولہجہ میں ارشاد فرماتے ہیں : ’’حقیقت یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کجھ ارشاد فرمایا ہے وہ سب قرآن ہی سے ماخوذ ہے، اگر کوئی قول یا فعل جو آپ کی طرف منسوب کیا گیا ہے قران کی کسی نص کے خلاف ہو تو لاریب وہ رسول کا قول اور فعل نہیں ہو سکتا۔‘‘ [2] وہی پرانی راگنی جو خوارج، معتزلہ، متکلمین اور دور جدید کے منکرین حدیث سُر بدل بدل کر الاپ رہے ہیں ۔ یہ فقرہ لکھنے کے بعد فرماتے ہیں : علامہ شاطبی نے بالکل صحیح لکھا ہے کہ: اور اس کے بعد شاطبی کی کتاب ’’الموافقات‘‘ کا ایک اقتباس اور اس کا ترجمہ نقل کیا ہے۔ میں پہلے الموافقات کی عربی عبارت نقل کر دینا چاہتا ہوں ، پھر اس کا ترجمہ جس کے بعد اس عبارت کی نکارت کو سمجھنا آسان رہے گا۔ ((السنۃ راجعۃ فی معناہا إلی الکتاب؛ فہی تفصیل مجملہ وبیان مشکلہ، وبسط مختصرہ، وذلک لأنہا بیان لہ، وہو الذی دل علیہ قولہ تعالی: ﴿وأنزلنا إلیک الذکر لتبین لناس ما نزل إلیہم﴾ فلا تجد فی السنۃ أمرا إلا والقرآن قد دل علی معناہ دلالۃ إجمالیۃ أوتفصیلیۃ و
[1] ص: ۳۱، ۳۲ [2] ص ۳۲