کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 105
بیان فرمائی ہے کہ: ﴿وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْہَوٰی﴾ وہ محض اپنی بصیرت سے اللہ تعالیٰ کی کتاب کی تفسیر وتبیین کس طرح کر سکتا تھا کیونکہ بصیرت بھی ’’ہوی‘‘ ہی ہے، اگرچہ ہوائے نفس اور ہوائے مذموم نہ ہو، مگر ماخذ رشد وہدایت بہرحال نہیں ہے۔ جب قرآن پاک کی کسی آیت سے غلط نتیجہ اخذ کرنے یا غلط مفہوم لینے کی کوئی گنجائش نظر آتی ہے تو حق ’’پسند‘‘ لوگ اس کو ان آیتوں کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں جو اپنے مفہوم میں صریح اور دو ٹوک ہوتی ہیں ، اگر آپ کو ﴿بِمَا أَرَاکَ اللّٰہ﴾ میں صرف ’’بصیرت نبوی‘‘ نظر آ رہی تھی تو آپ سورہ قیامہ کی وہ آیت دیکھ لیتے جو اس آیت مبارکہ کے بعد آتی ہے جس سے آپ نے قرآن کے لفظ ومعنی دونوں میں اللہ کا کلام ہونے پر استدلال کیا ہے، اس وقت آپ کو یہ علم الیقین حاصل ہو جاتا کہ اللہ تعالیٰ نے خود اپنی کتاب کی تفسیر وتبیین فرما دی ہے کیا یہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد مبارک نہیں ہے: ﴿ثُمَّ اِِنَّ عَلَیْنَا بَیَانَہٗ﴾ (القیامۃ: ۱۹) ’’پھر یقینا اسے بیان کر دینا ہمارے ذمہ ہے۔‘‘ کیا یہ ارشاد الٰہی نہایت واضح اور دو ٹوک طریقہ سے یہ خبر نہیں دے رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی کتاب میں جتنے حدود، حلال وحرام کے احکام اور وعدو وعید اور پندو نصائح وغیرہ کا اجما لا ذکر ہے اللہ تعالیٰ نے بذریعہ وحی اپنے رسول کو ان کی تفصیلات بتا دی ہیں ۔ اس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کتاب کی جو تشریح وتبیین فرمائی ہے وہ سب من جانب اللہ ہے اور وحی ہے۔ یہاں یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ اللہ تعالیٰ نے ﴿بِمَا أَرَاکَ اللّٰہ﴾ فرمایا ہے: ’’بِمَا رَاَیْتَ‘‘ نہیں فرمایا ہے اور اُری کے معنی ’’ أعلم‘‘ کے بھی آتے ہیں [1]یعنی اللہ نے تمہیں جو علم بخشا ہے اس کے مطابق فیصلہ کرو۔ اس سے ’’بصیرت نبوی‘‘ کے نظریہ پر مزید زد پڑتی ہے، اور حدیث کے وحی ہونے کے عقیدے کی مزید تائید ہوتی ہے۔ ایک دوسرا واقعہ جو منکرین حدیث کے اس دعویٰ کی جڑ کاٹ دیتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن کے سوا کوئی اور وحی نہیں نازل ہوتی تھی، مسجد اقصیٰ کو قبلہ بنانے سے متعلق ہے، کیا امر واقعہ یہ نہیں ہے کہ مکہ کے پورے عہد میں اور ہجرت کے بعد مزید دو برس تک نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام بیت المقدس کی مسجد اقصیٰ کی طرف منہ کر کے نمازیں پڑھتے تھے، اور قرآن پاک مسجد اقصیٰ کو قبلہ بنانے کے حکم سے بالکل خالی ہے، اس میں اشارۃ بھی اس کا ذکر نہیں آیا ہے۔ قرآن نے تو اس کا ذکر اس وقت کیا جب اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی اور مسلمانوں کو یہ حکم دیا کہ وہ وہ اپنے چہرے بیت المقدس کے بجائے مکہ کی مسجد حرام کی طرف کر لیں ، اس وقت اللہ تعالیٰ نے یہ بھی بتایا کہ بیت المقدس کو قبلہ اسی نے بنایا تھا اور اس کے لیے ’’فعل تعظیمی‘‘ کا صیغہ ’’جعلنا‘‘ استعمال فرمایا۔ (سورۂ بقرہ: ۱۴۳) کیا اس واقعہ سے یہ لازم نہیں آتا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر شرعی حکم وحی پر مبنی تھا کیونکہ اگر آپ نے یہ قبلہ اپنی بصیرت سے مقرر کیا ہوتا تو آپ مسجد حرام کے قبلہ بنائے جانے کی تمنا اور خواہش کیوں کرتے جس پر اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد مبارک
[1] القاموس القویم ، ص ۲۵۰، ج ۱