کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 104
مذکورہ بالا یہ صفات جبلی اور فطری ہیں ، لیکن تمام ابنیاء عموماً اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم خصوصاً ان صفات میں بے مثل اور بے نظیر ہونے کے باوجود دین وشریعت سے متعلق کوئی بات اپنی اس جبلی اور فطری صلاحیت اور اہلیت کے بموجب نہیں ، بلکہ اللہ کے حکم سے کہتے تھے، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم قرآن پاک کی تفسیر وبیان کے حوالہ سے بھی جوابات فرماتے وہ بھی اس بصیرت، اور اس فہم وفراست اور نور قلب کی روشنی میں نہیں ، بلکہ وحی الٰہی کی روشنی میں فرماتے تھے۔ بصیرت کی صفت میں نبی اور پیروان نبی دونوں شریک ہیں ، اگرچہ کسی صفت میں دو یا دو سے زیادہ افراد کا اشتراک یہ معنی نہیں رکھتا کہ وہ سب مساوی درجہ میں اس سے موصوف ہوں ۔ قرآن پاک میں بصیرت کا لفظ دو جگہ آیا ہے؛ سورۂ یوسف آیت نمبر ۱۰۸ اور سورۂ قیامہ آیت نمبر ۱۴، سورۂ یوسف میں یہ یقینی اور حقیقی علم کے معنی میں ہے، ارشاد ربانی ہے: ﴿قُلْ ہٰذِہٖ سَبِیْلیْٓ اَدْعُوْٓا اِلَی اللّٰہِ عَلٰی بَصِیْرَۃٍ اَنَا وَ مَنِ اتَّبَعَنِیْ﴾ (یوسف: ۱۰۸) ’’کہہ دو یہ ہے میرا راستہ میں اللہ کی طرف بلاتا ہوں ، میں اور جو میرے پیرو ہیں علم یقین پر ہیں ۔‘‘ مطلب یہ ہے کہ ہمیں شریعت کا علم یقین حاصل ہے اور جہان ہم ان لوگوں کے حالات کا علم رکھتے ہیں جن کو دعوت دینا ہے وہیں اس راستے سے بھی واقف ہیں جو مقصود تک پہنچاتا ہے۔ سورۂ فاتحہ اور انعام وغیرہ میں اس ’’سبیل‘‘ کو ’’صراط‘‘ سے بھی تعبیر کیا گیا ہے، ارشاد الٰہی ہے: ﴿وَ اَنَّ ہٰذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِیْمًا فَاتَّبِعُوْہُ وَ لَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِکُمْ عَنْ سَبِیْلِہٖ﴾ (الانعام: ۱۵۳) ’’اور در حقیقت یہ ہے میرا راستہ جو سیدھا ہے، لہٰذا اس کی پیروی کرو اور دوسرے راستوں کی پیروی مت کرو، ورنہ اس کے راستے سے تمہیں الگ کر دیں گے۔‘‘ سورۂ قیامہ میں یہ لفظ ’’شاہد‘‘ کے معنی میں آیا ہے اور شہادت بھی ’’علم‘‘ میں پر مبنی ہے، ارشاد الٰہی ہے: ﴿بَلِ الْاِِنسَانُ عَلٰی نَفْسِہٖ بَصِیْرَۃٌ﴾ (القیامۃ: ۱۴) ’’بلکہ انسان اپنے آپ پر مکمل گواہ ہے۔‘‘ دراصل نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم قرانی آیات کی جو تشریح وتبیین فرماتے تھے اس کا درجہ شرعی احکام کا ہے جن کی پیروی فرض ہے اور اللہ کے فرض کرنے سے فرض ہے، اس لیے یہ بصیرت کا نتیجہ نہیں ہو سکتی؛ بصیرت شرعی ماخذ نہیں ہے، اہل قرآن یا حدیث کے شرعی مقام کے منکرین اس بات کی سعی مذموم کرنے سے نہیں تھکتے کہ حدیث کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی رائے، اجتہاد اور فہم وفراست کا نتیجہ قرار دے کر اس کی قدرو قیمت کو گھٹائیں اس طرح حدیث کے شرعی ماخذ ہونے کا انکار کریں ۔ سورۂ نساء کی آیت نمبر ۱۰۵ کے فقرہ: ﴿بِمَا أَرَاکَ اللّٰہ﴾ سے قطعا یہ نہیں ظاہر ہوتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بصیرت، رائے اور صوابدید سے لوگوں کے مابین فیصلے کرتے تھے، اللہ تعالیٰ نے اپنے جس بندے اور رسول کی یہ صفت