کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 103
’’نماز قام کرو‘‘ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس اصولی حکم کی عملی تبیین فرمائی اور نماز پڑھنے کا طریقہ مقرر فرمایا اس پر قرآن کے دوسرے اصولی حکام کی تبیین کو قیاس کر لیں ۔ قرآن میں ایک جگہ فرمایا گیا ہے کہ: ﴿إِنَّ الصَّلَاۃَ تَنْہٰی عَنِ الْفَحْشَائِ وَالْمُنْکَرْ﴾ ’’بے شک نماز بے حیائی اور بری باتوں سے روکتی ہے۔‘‘ (سورۂ العنکبوت: ۴۵) اس آیت کی مزید تفصیل اس روایت سے ہوتی ہے جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے ارشاد فرمایا کہ تمہارا کیا خیال ہے، اگر کسی کے گھر کے سامنے دریا بہہ رہا ہو اور وہ اس میں دن میں پانچ بار غسل کرے تو کیا اس کے بدن پر کچھ میل کچیل باقی رہ جائے گا؟ صحابہ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول کوئی میل کچیل باقی نہیں رہے گا، آپ نے فرمایا: یہی معاملہ پانچ وقت کی نمازوں کا ہے، اللہ ان کے ذریعہ گناہوں کو مٹا دیتا ہے۔‘‘ اعظمی صاحب سے سوال: ۱۔ آپ نے بار بار ’’عملی تبیین‘‘ کی تعبیر کیوں اختیار فرمائی ہے، احادیث میں اللہ تعالیٰ کے حکم ﴿اَقِیْمُوْا الصَّلَاۃَ﴾ کی قولی تفسیرین عملی تفسیروں سے زیادہ بیان ہوئی ہیں ؟ ۲۔ آپ نے کہاں سے یہ سمجھ لیا کہ ﴿اَقِیْمُوْا الصَّلَاۃَ﴾ کی جو تبیین نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی ہے وہ بصیرت نبوی سے یعنی یہ تبیین وحی پر مبنی نہیں ہے؟ ۳۔ نمازوں کے ذریعہ گناہوں سے پاک وصاف ہو جانے کی مثال میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر روز پانچ بار غسل کرنے کی جو مثال دی ہے، کیا آپ کے پاس قرآن سے کوئی ایسی مثال ہے کہ یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وحی کی روشنی میں نہیں ، بلکہ محض اپنی رائے یا بصیرت سے فرمائی تھی؟ اگر نہیں ہے اور ہر گز نہیں ہوگی، تو کیا ایسی بات بلا دلیل منہ سے نکالنا درست ہے؟ حدیث بصیرت نہیں وحی ہے: ’’البصیرۃ‘‘ کے عربی مترادفات: قوۃ الإدراک، الفطنۃ، العلم، الحجۃ، العقیدۃ، الرأی، سمجھ بوجھ کی طاقت، فہم وفراست، علم، دلیل، عقیدہ وخیال وغیرہ۔ البصیرۃ کے أضداد: الغباء، البلادۃ، البلاہۃ، الحماقۃ، السذاجۃ، کند ذہنی، بے وقوفی، نادانی، حماقت، اور سادگی وغیرہ۔ ہر نبی اپنے وقت کا سب سے بڑا ذکی اور فہیم ہوتا تھا، اس کا علم اور اس کے دل کی روشنی سب سے زیادہ ہوتی تھی، بات کی تہہ تک پہنچ جانے کی اپنی صفت اور صلاحیت میں اپنا کوئی نظیر نہیں رکھتا تھا۔ اور اپنے عقیدہ وخیال کی درستگی میں سب پر فوقیت رکھتا تھا۔