کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 102
متبعین کے افکار کی ترجمانی ہوتی ہے۔ فہم قران میں اعظمی صاحب کو اصلاحی صاحب کا مقام نہیں حاصل ہے یہ دوسروں کے خوشہ چین ہیں اور ان کے یہاں اصالت اور پختگی تھی اگرچہ کسی کی تفسیر بھی حرف آخر نہیں ہوتی، آئیے یہ دیکھیں کہ انہوں نے اس آیت کی تفسیر میں کیا فرمایا ہے؟: ’’اراء ت کا لفظ قرآن میں اس وحی کے لیے بھی آیا ہے جو انبیاء علیہم السلام کو رویا میں ہوتی ہے جیسا کہ انفال آیت ۴۳ میں ہے اور اس رہنمائی کے لیے بھی آیا ہے جو ’’وحی متلو‘‘ کے ذریعہ سے ہوتی ہے جیسا کہ اس آیت میں ہے، اس لفظ کے معنی چونکہ دکھا دینے کے ہیں اس وجہ سے اس حقیقت کی طرف اشارہ ہوتا ہے کہ پیغمبر کو وحی کے ذریعہ سے جو رہنمائی ملتی ہے وہ گویا چشم سر سے حقائق کا مشاہدہ ہوتا ہے۔ ‘‘[1] اصلاحی صاحب نے ’’بما اراک اللّٰہ‘‘ سے وحی قرآنی ہی مراد لی ہے، مگر انہوں نے ’’رویا‘‘ کو بھی وحی قرار دیا ہے: ’’قرطبی نے ’’بما اراک اللّٰہ‘‘ کی تفسیر ’’إما بوحی ونصوص، أوبنظرٍ جارٍ علی سنن الوحی‘‘ سے کی ہے، یعنی اللہ نے تمہیں جو دکھایا ہے، سے مراد یا تو وحی یا نص ہے اور وحی کے طریقے پر جاری غور وتدبر۔ ‘‘[2] مذکورہ وضاحتوں کی روشنی میں ’’بصیرت نبوی‘‘ کی اصطلاح میں کوئی مضائقہ نہیں ہے، لیکن یہ بصیرت محمد بن عبداللہ کی نہیں ہے، بلکہ محمد رسول اللہ، کی ہے، یعنی یہ بھی وحی ہے یا وحی ہی پر مبنی ہے۔ اعظمی صاحب نے ’’بما أراک اللّٰہ‘‘ سے پورے ذخیرۂ حدیث کے وحی نہ ہونے پر جو استدلال کیا ہے تو یہ ان کی کوتاہ نظری ہے، کیونکہ اس فقرے میں ’’اراء ت‘‘ کی نسبت اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف کی ہے اس طرح یہ فقرہ ان کی من گھڑت اصطلاح ’’بصیرت نبوی‘‘ پر ایک کاری ضرب ہے۔ میں آگے ان شاء اللہ خود قران سے دکھاؤں گاکہ حدیث بھی وحی ہے، لیکن صرف معناً، البتہ قرآن لفظ ومعنی میں وحی اور اللہ کا کلام ہے۔ اعظمی صاحب نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال واعمال کے وحی نہ ہونے پر قرآن کے اس حکم ’’أقیموا الصلاۃ‘‘ کی حدیث میں تبیین سے اور آیت ﴿إِنَّ الصَّلَاۃَ تَنْہٰی عَنِ الْفَحْشَائِ وَالْمُنْکَرْ﴾ کی تمثیل نبوی سے استدلال کیا ہے، فرماتے ہیں : ’’اس تبیین کو میں ایک مثال سے واضح کرتا ہوں ، قرآن کا ایک اصولی حکم ہے کہ: ﴿اَقِیْمُوا الصَّلَاۃَ﴾
[1] تدبر قرآن ص ۱۴۹۔ ۱۵۰، ج ۲ [2] الجامع الأحکام القرآن ص ۲۵۸، ج ۳