کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 101
کو حقیقی معنوں میں وحی کہنا صحیح نہیں ہے، یہ اقوال واعمال دراصل قرآن کے اصولی احکام کی عملی تبیین ہیں ، یا عام ہدایات کی ان سے مزید تفصیل ہوتی ہے، یہ کام نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بصیرت نبوی کے مطابق انجام دیا تھا۔ [1] نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اعمال قرآن کے اصولی احکام کی عملی تبیین ہو سکتے ہیں ، مگر اقوال عملی تبیین کس طرح ہو سکتے ہیں ؟ یہ دعویٰ چونکہ بہت بڑا تھا اور بہت گمراہ کن بھی اس لیے سورۂ نساء کی آیت نمبر ۱۰۵ کا حوالہ دے دیا اور بس، نہ پوری آیت کا ترجمہ کیا اور نہ اس کے موضوع پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے حدیث کے یا بقول اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب اقوال اور اعمال کے وحی نہ ہونے پر سورۂ نساء کی جس آیت مبارکہ سے استدلال کیا ہے یا جس کا حوالہ دیا ہے اس میں چوری کا ایک واقعہ بیان ہوا ہے، چوری کی سزا قرآن پاک میں منصوص ہے، لیکن چور غیر معروف تھا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم عالم الغیب نہیں تھے کہ آپ کو خود معلوم ہو جاتا کہ وہ کون ہے اور اس کو سزا دیتے۔ قرآن سے اشارۃ اور حدیث سے صراحتاً یہ معلوم ہوتا ہے کہ چور کا تعلق منافقین مدینہ سے تھا۔ یاد رہے کہ منافقین کا شمار مسلمانوں ہی میں ہوتا تھا، کیونکہ وہ بظاہر مسلمان تھے، جمعہ جماعت میں شریک ہوتے تھے اور قول وعمل سے علانیہ اسلام مخالف کوئی حرکت نہیں کرتے تھے، اسلام کے خلاف ان کی ساری ریشہ دوانیاں در پردہ تھیں ، جب کسی ذریعہ سے اصل چور کا انکشاف ہو گیا تو اس نے اور اس کے اہل خانہ اور اہل قبیلہ نے چوری کا مال (زرہ) ایک یہودی کے ہاں رکھ دیا اور اس پر چوری کا الزام لگا دیا اور جب اس سے پوچھ گچھ کی گئی تو اس نے اپنی براء ت کا اظہار کیا، لیکن اصل چور کے بھائی بندوں نے اس کی پُر زور حمایت اور وکالت شروع کر دی اور یہودیوں کی حق دشمن کا سہار ا لے کر اسی کو چور ثابت کرنے پر بضدر ہے، اور قریب تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منافقین کی چرب زبانیوں سے متاثر ہو کر بے قصور یہودی کے خلاف فیصلہ صادر کر دیں ، مگر عین اسی موقع پر اللہ تعالیٰ نے سورۂ نساء کی چند آیتیں نازل فرما کر معاملہ کی اصل حقیقت بیان فرما دی ان آیتوں میں پہلی آیت وہی ہے جس سے اعظمی صاحب نے ’’بصیرت نبوی‘‘ کی اصطلاح گھڑی ہے پوری آیت اور اس کا ترجمہ درج ذیل ہے: ﴿اِنَّآ اَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ الْکِتٰبَ بِالْحَقِّ لِتَحْکُمَ بَیْنَ النَّاسِ بِمَآ اَرٰیکَ اللّٰہُ وَ لَا تَکُنْ لِّلْخَآئِنِیْنَ خَصِیْمًا﴾ (النساء: ۱۰۵) ’’ہم نے یہ کتاب تم پر حق کے ساتھ اتاری ہے تاکہ تم لوگوں کے درمیان اس کے مطابق فیصلہ کرو جو اللہ نے تمہیں دکھایا ہے اور تم بدعہدوں کے حمایتی نہ بنو۔‘‘ یہ ترجمہ مولانا امین احسن اصلاحی کا ہے، اصلاحی مکتبہ فکر یا اصلاحی نظریہ حدیث کی نسبت انہی کی طرف ہے اور ’’علوم القرآن‘‘ میں حدیث کے موضوع پر شائع ہونے والے مضامین میں عام طور پر احادیث کے متعلق انہی کے یا ان کے
[1] سورۂ نساء: ۱۰۵، ص ۳۱، ۳۲۔