کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 100
خلوت نشینی شروع کر دی جہاں آپ ’’تحنث‘‘ کرتے۔ [1] ام المومنین نے ’’یتحنث‘‘ کی تعبیر استعمال کی ہے، جس کی تفسیر ان سے حدیث روایت کرنے والے عروہ بن زبیر نے، یا عروہ سے اس کی روایت کرنے والے امام زہری نے ’’تعبد‘‘ سے کی ہے، دراصل یہ فعل ’’حِنث‘‘ سے بنا ہے جس کے معنی گناہ اور شرک کے ہیں ، قرآن پاک میں ہے: ﴿وَکَانُوْا یُصِرُّونَ عَلَی الْحِنثِ الْعَظِیْمِ﴾ (الواقعہ: ۴۶) ’’اور وہ بہت بڑے گناہ پر اڑے رہتے تھے۔‘‘ لیکن باب تفعل سے اس کے معنی گناہ سے بچنے کے ہو جاتے ہیں ، اسی وجہ سے عروہ یا زہری نے اس کی تفسیر ’’عبادت کرنے‘‘ سے کر دی ہے یہ کون سی عبادت تھی اس کا ذکر کسی بھی حدیث میں نہیں آیا ہے، جن لوگوں نے اس کی تفسیر تحنف سے کی ہے، یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم ’’دین حنیفی‘‘ کے مطابق عادت کرتے تھے۔ [2] ان کے اس قول کی لغت اور سیرت سے کوئی دلیل نہیں ہے، آخر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دین ابراہیم کے مطابق عبادت کا طریقہ کیسے معلوم ہوا؟ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی اس روایت کے علاوہ کسی بھی صحیح حدیث میں غار حرا میں آپ کی اس خلوت نشینی کی کوئی تفصیل نہیں بیان ہوئی ہے اور سیرت کی بعض کتابوں میں اور صوفیا کے حلقوں میں غار حرا میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت وریاضت کے بارے میں جو کچھ بیان کیا جاتا ہے سب من گھڑت اور خیالی ہے۔ اور اعظمی صاحب نے بھی آپ کی عبادت وریاضت، تزکیہ نفس اور روحانی استعداد وغیرہ کی باتیں اپنے ذہن سے گھڑ لی ہیں جو بے بنیاد ہونے کے ساتھ قرآنی تصریحات کے خلاف بھی ہیں ۔ امر واقعہ یہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب مبارک میں مکہ کی مشرکانہ فضا سے جو فطری نفرت اور بیزاری تھی وہ بصورت خواب وحی کے آغاز سے فزوں تر ہو گئی تھی اور غار حرا میں گوشہ نشینی سے آپ کے قلب مبارک کو راحت ملتی تھی، رہا یہ دعویٰ کہ آپ خدائی پیغام وصول کرنے کے لیے روحانی استعداد پیدا کر رہے تھے اور جب آپ کا آئینہ قلب پوری طرح صیقل ہو گیا تو پہلی وحی نازل ہوئی، شاعرانہ بڑ کے سوا کچھ نہیں ، جس کی تردید کے لیے اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد کافی ہے: ﴿وَوَجَدَکَ ضَآلًّا فَہَدٰی﴾ (ضحی: ۷) ’’اور اس نے تمہیں نا واقف راہ پایا پس راہ دکھائی۔‘‘ بصیرت نبوی: اعظمی صاحب حدیث کے بارے میں اپنا نقطہ نظر بیان کرتے ہوئے رقمطراز ہیں : جہاں تک ان اقوال واعمال کا معاملہ ہے جو حدیث کی کتابوں میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کیے گئے ہیں تو ان
[1] بخاری: ۳، مسلم: ۱۶۰ [2] فتح الباری ص ۲۶۲، ج ۱