کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد اول - صفحہ 92
الامراء اکرھونا علی کتابۃ ’’الأحادیث‘‘ فتعالوا حتی أحدثکم بہا، فحدثھم بالآربعمائۃ الحدیث۔))[1] ’’لوگو! ہم نے تم کو جس چیز سے منع کررکھا تھا آج خود ہم نے ان امراء کی خاطر اس کو کر ڈالا ہے، کیونکہ ان امراء نے ہمیں حدیثیں لکھنے پر مجبور کردیا، لہٰذا آؤ میں تم سے وہ حدیثیں بیان کردوں ، پھر انھوں نے ان سے وہ چار سو حدیثیں بیان کردیں ۔‘‘ حافظ خطیب بغدادی نے امام زہری کے مذکورہ قول کو کچھ مختلف الفاظ میں نقل کیا ہے: ((کنا نکرہُ کتاب العلم، حتی أکرھنا علیہ ھولاء الآمراء فرأینا أن لانمنعہ أحدا من المسلمین۔))[2] ’’ہمیں علم -حدیث- کی کتابت ناپسند تھی، یہاں تک کہ ان امراء نے ہمیں اس پر مجبور کردیا، لہٰذا ہم نے یہ مناسب خیال کیا کہ اس سے کسی مسلمان کو منع نہ کریں۔‘‘ میں نے مذکورہ واقعہ پوری دیانت داری کے ساتھ جوں کا توں نقل کردیا ہے جس کو اگر کوئی کھلے ذہن دل و دماغ کے ساتھ پڑھے تو وہ اس سے اس کے علاوہ کوئی نتیجہ نہیں نکالے گا کہ امام زہری نے احادیث کو ضبط تحریر میں نہ لانے اور اپنے شاگردوں کو انھیں نہ لکھوانے کا جو اصول بنا رکھا تھا ہشام بن عبد الملک کے اصرار یا فرمائش کی وجہ سے ان کو اس کی خلاف ورزی کرنی پڑگئی، لیکن اس واقعہ سے اس بات کا اشارہ تک کسی کو نہیں مل سکتا کہ ہشام نے ان کو حدیثیں وضع کرنے اور گھڑنے پر مجبور کردیا تھا اس لیے وہ اس کا ارتکاب کرنے لگے، الا یہ کہ اس کے دل و دماغ میں فتور ہو، دراصل گولڈ زیہر نے اپنی استشراقی ذہنیت سے مجبور ہوکر اس پورے واقعہ میں صرف امام زہری کے اس قول کو دیکھا: ((إن ھولاء الامراء اکرھونا علی کتابۃ الحدیث۔)) پھر اس کو سیاق و سباق سے نکال کر اور اس کو اپنے خراد پر چڑھا کر اس کو اپنے منشاء کا ترجمان بنادیا۔ اس نے اس واقعہ سے امام زہری پر وضعِ حدیث کا الزام دھرنے کے لیے اس مسئلے میں دو علمی خیانتیں بھی کر ڈالیں : (۱)… اس نے پہلی خیانت یہ کی کہ ’’الاحادیث‘‘ یا ’’الحدیث‘‘ کے الف لام کو حذف کرکے اس کو عام کردیا اور اس میں جو خصوصیت تھی اس کو ختم کردیا وہ اس طرح کہ امام زہری نے ’’الاحادیث‘‘ کہہ کر وہ حدیثیں مراد لی تھیں جو ہشام نے ان سے فرمائش کرکے لکھوائی تھیں ، لیکن الف لام حذف کردینے کے بعد اس عبارت کا مطلب یہ ہوگیا کہ امراء نے ہمیں عام حدیثیں لکھنے اور ضبط تحریر میں لانے پر مجبور کردیا۔
[1] السنۃ ومکانتہا ص ۲۴۸، الوضع فی الحدیث ص ۱۹۷۔ [2] تقیید العلم ص ۱۰۷۔